Transparency International Pakistan's Head Work for PML-N

The government of PML-N always claim to be a corruption free government. Chief Minister of Punjab, Mian Shehbaz Sharif, continuously tells the media and Punjabi people that Punjab government is corruption free and there is only one way leading towards the development; metro bus.

So here is the formula PML-N uses to improve the ranking regarding corruption control. It hires the country head of Transparency International Pakistan, to work for the Prime Minister. And, in return it gets what it wishes; a certificate that Pakistan has become a corruption free nation. 


Have a look at the video. Amir Mateen and Rauf Klasra break the story.


In addition, both of the senior journalists also explain how the leadership of PML-N had been conspiracies against the democratic governement of Pakistan Peoples Party of Paksitan.






Please feel free to share your thoughts about the so called good governance of PML-N, which some people start calling as Islami Jamhuria Sharifia

وزیر خارجہ کی خالی آسامی کے لیے ایک عرضی


وزیر خارجہ کی خالی آسامی کے لیے ایک عرضی


بخدمت جناب وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان

جناب عالی

مودبانہ گذارش ہے کہ جب سے آپ نے پردھان منتری کا منصب سنبھالا ہے ہمارا عظیم ترین اسلامی جمہوریہ ایک عدد وزیر خارجہ سے محروم چلا آ رہا ہے۔ چنانچہ ایک طرف تو قومی خزانے کو تنخواہ اور دیگر مراعات کے ضمن میں ٹیکہ نہیں لگ پا رہا تو دوسری طرف اس وزارت کی ذمہ داریاں بھی آپ کے نرم ونازک کاندھوں پر ہے۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اب آپ کے کاندھے یہ بوجھ اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہوں گے۔ میں آپ کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ فدوی کی موجودگی میں اب آپ کو مزید ہلکان ہونے کی ضرورت نہ ہے۔ آئندہ سطور میں یہ واضح کرنے کہ آخر کیوں میں خود کو وزیر خارجہ کی نوکری کے لیے اہل ترین امیدوار پاتا ہوں۔

خدا لگتی کہوں تو تمام تر تلاش کے باوجود مجھے اپنے عظیم ترین اسلامی جمہورئیے کے اصلی اور ایک نمبر پردھان منتری کا سراغ نہیں مل سکا۔ آج تک سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ کے ہوتے ہوئے یہ ملک چل کیسے رہا ہے۔ تنگ آ کر وزیر اعظم ہاوس کی جانے والے تمام کھرے ناپے تو پتہ چلا کہ وزیر اعظم کی کرسی کسی غریب کی خوبرو بیوی کی طرح سب کی بھابھی بن چکی۔ جس کا ڈنڈا، اس کا راج۔ چڑھتے سورج کی پوجا میرا بھی سیاسی ایمان ہے۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ جو بھی وزیر اعظم کی کرسی پر اپنی متبرک تشریف رکھے گا، اس کی ذاتی وفاداری اور خدمت گذاری میں کوئی وزیر میرا مقابلہ نہیں کر سکےگا۔ آپ ایک قدر دان آدمی ہیں، امید ہے کہ آپ ہیرے کی قدر کرنے میں کوئی کنجوسی نہیں دکھائیں گے۔

وزیر خارجہ کے منصب کے لیے میری دوسری بڑی خوبی میری سستی اور کاہلی ہے۔ ادھر شام ڈھلی، ادھر ہماری آنکھیں بند ہوئیں۔ سورج سوا نیزے پر آتا ہے تو آنکھ کھلتی ہے۔ چونکہ اس میدان میں آپ کو اپنا مرشد اور امام سمجھتا ہوں اس لیے کبھی وزیر اعظم کی کرسی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ ہاں، آپ ایوان صدر میں بٹھا دیتے تو کیا ہی بات تھی۔ مگر، شکست تسلیم۔ قصر صدارت کے موجودہ مکین بازی مار گئے۔ مگر ہم نے بھی خوشامد اور چاپلوسی کے میدان میں انہیں مات دینے کا پکا تہیہ کیا ہوا ہے۔ جہاں تک میری سستی کا تعلق ہے تو یقین کیجیے کہ جب سے آپ نے حکومت سنبھالی ہے، یہ عرضی لکھ رہا ہوں جو آج آ کر ختم ہوئی۔ جانتا ہوں کہ وزیر خارجہ کی کرسی پر آپ کی دختر نیک اختر کا پیدائشی حق ہے۔ لیکن جب تک انہیں سائیڈ پوز میں ایسی تصویر بنوانے کے مشق نہیں ہو جاتی جس سے بے نظیر بھٹو کی یاد تازہ ہو جائے، اس وقت تک یہ خاکسار وزیر خارجہ بن کر اکڑتا پھرے تو اس میں مضائقہ کیا ہے؟

میری تیسری سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مجھے بالکل پتہ نہیں کہ ایک وزیر خارجہ کرتا کیا ہے۔ اس کی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں، میرے فرشتے بھی نہیں جانتے۔ اس ضمن میں ہمارے وچار آپ کے نیک خیالات سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ اب اگر انسان نے صدر، وزیر اعظم، وزیر اعلی، گورنر یا وزیر خارجہ بن کر بھی کام ہی کرنا ہے تو اس سارے جھنجھٹ میں پڑنے کا فائدہ۔ چنانچہ، وزیر خارجہ کی کرسی کے لیے میں اس لیے بھی بہترین ہوں کہ میں عملی طور پر کچھ کرنے کا اہل ہی نہیں۔ ہاں، وزیر خارجہ کے آراستہ دفتر میں ضرور بیٹھ سکتا ہوں۔ پروٹوکول کی گاڑیوں کے درمیان ایک بڑی سی گاڑی میں سفر کرنا میرا محبوب مشغلہ ہو سکتا ہے۔ آپ کے حکم ہو اور سرکاری خزانے کا منہ کھلا ہو تو میں وسیع تر قومی مفاد کی خاطر پوری دنیا کا سفر کر سکتا ہوں۔ کاغذ، قلم، کتاب، اور اخبار سے مجھے بھی چڑ ہے۔ آپ جیسی صلاحیت بھی نہیں کی سنجیدہ سا منہ بنا کر ٹی وی پر ایویں ای مدبر اور سنجیدہ سیاستدان نظر آنے کی اداکاری کر سکوں۔ اگر آپ مجھے وزیر خارجہ بنا دیں گے تو اور کچھ بھی نہ کر سکا، ایک کونے میں مصلیٰ ڈال کر آپ اور آپ کے خاندان کے لمبے اقتدار کے لیے دعائیں ضرور کرتا رہوں گا۔

آپ یہ مت سوچیے گا کہ میں بالکل ہی نکما ہوں اور وزیر خارجہ بن کر کچھ بھی نہیں کروں گا۔ جی نہیں۔ میں نے پوری تیاری کر رکھی ہے۔ خادم اعلیٰ کے گذشتہ سات سالوں کی تمام تر بڑھکوں کا رٹا لگا رکھا ہے۔ اگر کوئی والد بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر اپنے بچوں کی جان لے لے گا تو اس کے ہاں تعزیت پر جا کر اس کو یاد دلاوں گا کہ بد ترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ ہر ہفتے ایک بیان جاری کرنا ہے کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔ ہر مہینے ایک بھاشن دینا ہے کہ پاکستان نے جنوبی ایشیا میں باوقار کردار ادا کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ ہر دوسرے تیسرے دن عوام سے وعدہ کرنا ہے کہ اگلے چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔ کبھی کبھی اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کر کے ان کو بتانا ہے کہ پاکستان برادر اسلامی ممالک سے برادرانہ تعلقات پر یقین رکھتا ہے۔ اگر مغربی ممالک لفٹ کروائیں تو ان کو بتانا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پر عزم ہے۔ ہر صبح ایک پریس ریلیز جاری کرنی ہے اور عوام کو بتانا ہے کہ بے خبرو دیکھ لو، ہمارے ملک کی عزت اقوام عالم میں بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ ہر ہفتے لندن پلان کی قوالی۔ ہر ٹی وی شو میں تحریک انصاف پر تبرا بھیجنا۔ فوجی قیادت اور آپریشن ضرب عضب کی تعریف ہفتے میں باقاعدگی سے دو بار تعریف۔ دیکھ لیا میاں جی۔ خارجہ امور میں کتنے کائیاں ہیں ہم۔۔

میری ان گنت خوبیوں میں ایک خوبی اور بھی ہے اور میرا خیال ہے کہ وزیر خارجہ کی کرسی کے لیے یہ خوبی فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ آپ یہ جان کر بہت خوش ہوں گے کہ اگر تذکرہ پاکستان کی مسلح افواج کا ہو تو میرا چہرہ غصے سے لال ہو جاتا ہے، زبان گز بھر لمبی ہو جاتی ہے، سننے والے کو لگتا ہے کہ میں اپنے ملک کی فوج کے بارے میں نہیں بلکہ اسرائیل کی فوج کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ جبکہ دوسری طرف، ذکر اگر بھارت کا ہو تو خواہ مخواہ میرے چہرے پر محبت اور وارفتگی کے تاثرات آ جاتے ہیں۔ مودی سرکار پاکستان کے بارے میں زہر بھی اگلے تو میرے ہونٹ دوستی اور شانتی کی تسبیح کرتے نہیں تھکتے۔ معاملہ بین الاقوامی طاقتوں کا ہو تو زبان بند ہو جاتی ہے اور کان احکامات سننے کے لیے بے تاب ہو جاتے ہیں۔ اب ایمانداری سے بتائیے گا کا میرا وزیر خارجہ بننا آپ کے طوالت اقتدار کے لیے کس قدر مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

اگر میں اپنی خوبیاں یونہی گنواتا رہا تو یہ ایک کتاب بن جائے گی۔ اب ایک تو آپ کتاب کو بھارت اور اسرائیل سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں تو یونہی قلم گھسیٹنے سے فائدہ۔ یقین کیجیے، وزیر خارجہ کی خالی آسامی کے لیے مجھ سے بہتر شخص روئے زمین پر نہیں ملے گا۔ ویسے بھی مجھے یقین ہے کہ وزیر خارجہ کی کرسی صرف اس لیے خالی پڑی ہے کہ آپ کو میری ہی تلاش تھی۔ براہ کرم، خاکسار کو فی الفور وزیر خارجہ تعینات کر کے ممنون احسان فرمائیں۔۔

العارض
قیصر ایم چوہدری، خود ساختہ خادم آستانہ عالیہ شریفیہ، پیرس

اسلامی جمہوریہ شریفیہ میں گورنر کی تعیناتی کی کہانی




اسلامی جمہوریہ شریفیہ کے غیور شہریوں کے مبارک، جمہوریہ شریفیہ کے سب سے بڑے صوبے کے با غیرت اور با شعور عوام کو سلامت۔ پاکستان کے ہر دل عزیز راہنما، قائد اعظم ثانی، نیلسن منڈیلا ثانی، صلاح الدین ایوبی ثانی، فخر ایشیا، سرمایہ کارِسعودیہ و برطانیہ، اعلیٰ حضرت بڑے میاں نے طویل غور و فکر اور سوچ بچار کے بعد پنجابی عوام کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ایک عدد گورنر کی تعیناتی کا تاریخ ساز فیصلہ کر لیا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ اس کارِ عظیم کے صلے میں تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ عوام کو یہ بھی یقین بھی ہونا چاہیے کہ نئے گورنر کی تعیناتی کے بعد پنجاب کے ہر شہر میں دودھ اور شہد کی ایک ایک نہر پھوٹے گی۔ ہر گلی میں امن کا طوطی بولا کرے گا۔ ہر چوک پر شانتی بین بجایا کرے گی اور نو من تیل ساتھ لیے رادھا ناچا کرے گی۔ جو ناہنجار اس پر شک کرے، ہمارے علمائے کرام کو اسے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہونی چاہیے۔ 

تفصیلات کے مطابق سابق گورنر پنجاب گورنر کی حقیقی ذمہ داریوں سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے کفران نعمت کے بار بار مرتکب ہو رہے تھے۔ جب ان کو اپنے اس گناہ عظیم کا احساس ہوا تو وہ اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو گئے اور آج کل کفارے کے طور پر لندن کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ یوں ان کی رخصتی کے بعد پنجاب کے گورنر کی کرسی خالی پڑی تھی۔ گورنر کے دفتر میں بھی الو بولنا شروع ہو چکے تھے۔ گورنر ہاؤس کی غلام گردشوں میں ویرانی ناچ رہی تھی۔ دنیا سوال کر رہی تھی کہ جو حکومت ایک عدد گورنر بھی تعینات نہیں کر سکتی، وہ دہشت گردوں کا مقابلہ خاک کرے گی۔ سب سے بڑھ کے پنجاب کے عوام اس محرومی کے احساس میں مبتلا ہونے لگی تھی کہ ہم بھی کیسے لوگ ہیں جن کا کوئی گورنر بھی نہیں۔ اگرچہ ایک عدد نئے گورنر کی ضرورت ہر گز نہ تھی۔ چھوٹے میاں جی وزارت اعلیٰ کے ساتھ ساتھ گورنری کا بوجھ بھی اپنے فولادی کاندھوں پر اٹھا سکتے تھے مگر اسلامی جمہور شریفیہ کے پردھان منتری کاغذی دولت کے ساتھ ساتھ دردِدل کی دولت سے بھی مالا مال واقع ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم ہاؤس سے کر مری کے یخ بستہ موسم میں وہ قوم کے دکھ درد میں کڑھتے رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کی راتوں کی نیند اڑ چکی ہے۔ چہرے پر ویرانیوں کو بسیرا ہے۔ وزن کم ہو کر آدھا رہ گیا ہے ۔  قوم کے غم کی ہی وجہ سے وہ اکثر فائلوں پر ضروری توجہ نہیں دے پاتے اور کئی کام ادھورے رہ جاتے ہیں۔ بُرا ہو ان ناقدین کا، جو ہر وقت ہمارے معصوم وزیر اعظم پر پھبتیاں کستے رہتے ہیں۔

بہر حال، اسلامی جمہوریہ شریفیہ کے ہر دل عزیز راہنما، قوم کی ڈوبتی کشتی کے واحد سہارے کے طور پر محمد شاہ رنگیلا کی بجائے سلطان صلاح الدین ایوبی کے نقش قدم پر چلنے کا پر خطر اور کٹھن فیصلہ کرتے ہیں۔ رائے ونڈ میں اپنی غریب گاہ میں ایک اہم اجلاس طلب کرتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ شریفیہ کے اہم عہدے داروں کے علاوہ ملک کے طول و عرض سے خاندانی بھانڈ، ٹٹ پونجیے، مالشیے، خاکروب، میراثی، موت کے کنووں کے سامنے گانے والے، سرکس میں اپنے کرتب دکھانے والے بطور امیدوار اس بزم میں شامل ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں، ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے اصحاب کو بھی خصوصی دعوت دی گئی جو خوشامد، چاپلوسی، چرب زبانی اور لوٹ کھسوٹ کے فن میں یدِطولیٰ رکھتے تھے۔ اس بات کا خصوصی اہتمام کیا گیا کہ اس بزم میں صرف وہی اصحاب شامل ہوں جن کے روشن اذہان ہر قسم کی سیاسی سوجھ بوجھ کی آلائش سے صاف اور پاک ہوں۔ ان افراد کا داخلہ اس بزم میں ممنوع قرار دیا گیا جن کے سینے میں ضمیر نام کی کوئی شے مرتے دموں پر بھی پائی گئی۔ 


ہماری چڑیا بھی اس محفل کے ایک کونے میں دبکی اس تاریخ ساز اجلاس کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی ۔ رسمی علیک سلیک کے بعد انٹرویوز کا سلسلہ شروع ہوا، جو لمبا ہوتا چلا گیا ۔ انٹرویو کے دوران امیدواروں سے مختلف قسم کے سوال کیے گئے، امیدواروں کے جوابات کی روشنی میں ان کی شخصیت کا تجزیہ مختلف زاویوں سے کیا جاتا۔ ان تجزیوں میں یہ بات سامنے آتی، کہ انتہائی بے ضمیر انسانوں اور مردہ دلوں میں بھی اپنے ہم نفسوں کی بہتری اور بھلائی کے لیے کچھ کرنے کی تمنا کسی کونے کھدرے میں پائی جاتی ہے۔ چونکہ اسلامی جمہوریہ شریفیہ اور اس کے عوام دو مختلف چیزیں ہیں لہٰذا، اسلامی جمہوریہ شریفیہ کے وسیع تر مفاد کی خاطر یہ امیدوار مسترد کیے جاتے رہے۔ یہ اتنا مشکل انتخاب تھا کہ ایک ایسا خاندانی بھانڈ، جس کے پرکھوں نے اکبر اعظم کے دربار میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا، بھی ناکام ہو گیا۔ جمہوریہ شریفیہ کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر کی تعیناتی کا عمل لمبا ہونے لگا۔ امید نا امیدی میں بدلنے لگے۔ تبھی انٹرویو کے لیے قرعہ فال جناب عطاء شریف قاسمی کے حق میں نکلا۔ جناب قاسمی نے اپنی بابرکت اور بھاری تشریف امیدواری کی کرسی میں رکھی۔ اسلامی جمہوریہ شریفیہ کی مقتدر ترین ہستی کی جانب سے دھیمے لہجے میں ایک سوال کیا گیا۔ لہجہ اتنا دھیما تھا کہ صرف قاسمی صاحب کی سماعتیں ہیں سماعت کا شرف حاصل کر پائیں۔ جناب قاسمی نے اپنی آنکھیں بند کیں۔ چشمِ تصور میں پٹھانے خان کو دیکھا، اندھی عقیدت کو چھوتے ہوئے عشقیہ لہجے میں حضرت خواجہ ّغلام فرید کا یہ کلام پیش کیا 

میڈا عشق وی توں، میڈا یار وی توں
میڈا دین وی توں، ایمان وی توں

میڈا جسم وی توں، میڈا روح وی توں
میڈا قلب وی توں، جند جان وی توں

میڈا کعبہ، قبلہ، مسجد، منبر
مصحف تے قرآن وی توں

میڈے فرض، فریضے، حج، زکوٰتاں
صوم، صلوٰات، اذان وی توں

میڈی زُہد، عبادت، طاعت، تقوٰی
علم وی توں، عرفان وی توں

میڈا مرشد، ہادی، پیر طریقت
شیخ حقائق دان وی توں

میڈا حسن تے بھاگ، سہاگ وی توں
میڈا بخت تے نام نشان وی توں


حضرتِ قاسمی کی عقیدت اور عشق میں رندھی ہوئی آواز، اوپر سے عاشقین جمہوریہ شریفیہ کے درمیان محبوبِ اول کی بنفسِ نفیس موجودگی، ہماری چڑیا کا کہنا ہے کہ حاضرینِ محفل ہر ایک وجد سا طاری تھا۔ حکومت کے کچھ وزیر مجذوبانہ رقص کر رہے تھے تو کچھ دیوانہ وار۔ کچھ کی آنکھوں میں آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہ لے رہے تھے۔ سبھی چہرے عالم محویت میں اپنے محبوب اور جمہوریہ شریفیہ کے تاجدار کے منور چہرے کے طرف دیکھے ہی جا رہے تھے۔ ہر دل میں ایک ہی تمنا تھی کہ وقت تھم جائے۔ صدر مملکت اسلامی جمہوریہ شریفیہ، جن کی موجودگی اس سے قبل محسوس نہ کی گئی تھی، نے اپنی سامنے پڑی میز استعمال کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے طبلہ بجایا۔ محترم وزیر دفاع اٹھے اور انہوں نے منی بدنام ہوئی کی لے پر بھر پور ٹھمکا لگایا۔  محترم وزیر اعظم اور سبھی حاضرین محفل متفق تھے کہ اگر پڑوسی ملک سے جنگ کی نوبت آئی تو دشمن کو میدان جنگ میں بدنام کرنے لیے محترم وزیر کا ایک ٹھمکا ہی کافی ہو گا۔ اس پر جناب وزیر اعظم جمہوریہ شریفیہ نے ملک کی دفاعی تیاریوں پر بھرپور اطمینان کا اظہار کیا اور فرمایا کہ اب دشمن کو ہماری طرف بری آنکھ سے دیکھنے کی بھی جرات نہ ہو گی۔ اس کے بعد، جنابِ صدر نے بڑے میاں جی کی منظوری اور تھپکی کے بعد جنابِ قاسمی کو نیا گورنر مقرر کیا۔ اس موقع پر جنابِ صدر نے یہ بھی کہا کہ چونکہ آج کل کار حکومت فوج دیکھ رہی ہے لہٰذا، اگلے گورنر کی تعیناتی تک حکومت کو چھٹیاں دی جاتی ہیں۔ جنابِ صدر نے اس با برکت موقع پر یہ خوش خبری بھی سنائی کہ چھٹیوں کے دوران تمام حکومتی عہدیداروں کو تنخواہیں اور دیگر مراعات باقاعدگی سے ادا کی جائیں۔ اس کے بعد اجتماعی دعا کی گئی ۔ مولوی صاحب نے کہا کہ اللہ ہم پاکستانی عوام کو تیرے سپرد کرتے ہیں۔ اس پر تمام 
حکومتی عہدیداروں نے بلند آواز سے کہا، آمین۔

An Open Letter to Javed Chaudhry - جاوید چودھری کے نام کھلا خط

This Urdu letter is a response to Javed Chaudhry’s Urdu column published in Daily Express on 14 September 2014. In his column, Mr Chaudhry grumbled over the verbal abuse by PIT’s supporters and sympathizers only due to his unbiased and impartial analyses. In this Open Letter To Javed Chaudhry, the author of the letter tried to reply some of the questions put forward by Javed Chaudhry and see if he has really been impartial and unbiased over the recent years.


محترم جاوید چودھری صاحب

السلام علیکم و رحمتہ اللہ

آپ کا کالم ، عمران خان کے لیے، نظر سے گذرا۔ اس تحریر نے آپ نے عمران خان کے خوب لتے لیے۔ خان صاحب کے حلقہ ارادت میں شامل ہونے سے لے کر خان صاحب سے وابستہ توقعات کے ٹوٹنے تک کے سفر کو بہت تفصیل سے بیان کیا۔ آخر میں آپ نے قارئین کو گالیاں دینے کی دعوت دی۔ کسی کو اختلاف رائے کی بنیاد پر گالیاں دینا ایک غلط عمل ہے۔ آپ نے ایک غلط عمل کی حوصلہ افزائی اور سہولت فراہم کرنے کی خاطر دو عدد موبائل نمبرز بھی فراہم کر دئیے۔ جزاک اللہ۔ تاہم میرا مشاہدہ یہ ہے کہ میڈیا سے وابستہ لوگوں کے لیے گالیاں اور تعریفیں دونوں ہی فائدہ مند ہوتی ہیں اور ریٹنگ بڑھانے کا باعث بنتی ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ کا مطمح نظر ہر گز یہ نہیں ہو گا۔ 




سب سے پہلے تو یہ اعتراف کہ میں آپ کے کالموں پر باقاعدگی سے نظر ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ آپ مبالغہ آرائی کے فن کے شہنشاہ ہیں ۔ آپ مبالغہ آرائی کو بھی مبالغہ آرائی کی آخری انتہا تک پہنچا دیتے ہیں۔ آپ  رائی کو پہاڑ نہیں بلکہ سلسلہ کوہ ہمالیہ بنا دیتے ہیں۔ تاہم یہ اعتراف بھی ہے کہ رائی کا وہ ذرہ جس پر آپ کوہ ہمالیہ کی بناد رکھتے ہیں اکثر اوقات باسیدہ اوقات میں ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہوتا ہے۔ اس میں سیکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے

اب بات کرتے ہیں عمران خان صاحب کے حلقہ ارادت میں آپ کی شمولیت کی۔ میں آپ کی اس بات پر یقین کرنا چاہتا ہوں۔ مگر کیا کیجیے کہ میں آپ کا ایک انٹرویو نہیں بھول سکتا۔ اس نشست میں وزیر اعلیٰ پنجاب آپ کے مہمان تھے۔ صحیح ترین الفاظ میں آپ میاں صاحب کے مہمان لگ رہے تھے۔ آپ وہ انٹرویو دوبارہ دیکھ سکتے ہیں۔ اگر غیر جانبداری آپ کی نظر میں ذرہ بھی اہمیت رکھتی ہے تو آپ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ آپ نے وہ سوالات نہ کیے جو بطور صحافی آپ کا فرض منصبی تھا۔ آپ نے شہباز شریف کو کھلی چھٹی دی کہ وہ اپنی بے منطق گفتگو اور بے ربط سفید جھوٹ آپ کے پروگرام کے ذریعے عوام تک پہنچا سکیں۔ کچھ صاحبان رائے کا ماننا یہ بھی ہے کہ اس سے زیادہ فرینڈلی انٹرویو شائد ہی پاکستان میں ممکن ہو ۔ حالانکہ بقول آپ کے اس وقت تک آپ خان صاحب کے حلقہ ارادت میں شامل تھے۔ 


مجھے آپ کا وہ کالم بھی بھلائے نہیں بھولتا جس میں آپ نے اپنا زور تحریر یہ ثابت کرنے پر صرف کر دیا کہ اسحٰق ڈار ایک ایسے عاشقِ رسول ہیں جن کے لبوں پر ہر وقت درود و سلام کے پھول کھلتے ہیں۔ آپ نے قارئین کو یہ باور کرانے کی بھی کوشش کی کہ اب پاکستانی عوام کے حالات بدلنے ہی والے ہیں کیونکہ اب ہمیں ایسا وزیر خزانہ مل گیا ہے جس پر عوام کی حالت بدلنے کے لیے دن رات کام کرنے کا جنون سوار ہے ۔ آپ نے بھول کر بھی یہ بھی انکشاف کرنے کی غلطی نہیں کی کہ یہ وہی وزیر خزانہ ہے جو ماضی میں شریف خاندان کے لیے منی لانڈرنگ جیسے جرم میں ملوث رہا ۔ آپ نے عوام کو یہ نہیں بتایا کہ ہمارا یہ وزیر خزانہ صرف اور صرف ٹیکس بچانے کے لیے اپنی جمع پونجی اپنے بیٹے کو بطور قرض حسنہ دے دیتا ہے ۔ بطور صحافی آپ کا فرض تھا کہ آپ اس طرف توجہ دلاتے کہ اسحٰق ڈار ایک چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ ہیں ایک اکانومسٹ نہیں۔ اکاؤنٹنٹ کو اردو میں منشی کہا جا سکتا ہے جس کا کام حساب کتاب رکھنا ہوتا ہے۔ اگر آپ غیر جانبدار ہوتے تو یہ سوال اٹھاتے کہ ایک منشی معیشت کہ بہتری میں کس حد تک کردار ادا کر سکتا ہے۔ جبکہ آپ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ایک مولوی ایک اچھا سرجن بننے جا رہا ہے۔ اسی کالم میں آپ نے نواز شریف کو درد دل کی دولت سے مالا مال انسان قرار دیا۔ آپ نے ان کو شرافت، عاجزی اور انسان دوستی کا ماؤنٹ ایورسٹ بنا ڈالا۔ آپ نے ایک واقعہ لکھا کہ کس طرح میاں صاحب نے صرف غصہ نہ آنے کی وجہ سے گاڑی رکوائی اور باہر نکل کر گرو و غبار سے اٹی زمین پر نوافلِ شکرانہ ادا کیے ۔ یہ کالم ٢٠١٣ میں لکھا گیا۔ اس تحریر کا ایک ایک لفظ عشقِ نواز کی صدا دیتا ہے۔ ایک سچے مرید کے دو مرشد نہیں ہوتے ۔ اگر ٢٠١٣ میں آپ نواز شریف اور اسحٰق ڈار کے مرید تھے تو آپ کے زیر بحث کالم میں اگست ٢٠١٤ تک عمران خان کے حلقہ ارادت میں شامل رہنے کا دعویٰ بے بنیاد ہے ۔ جھوٹ ہے ۔ آپ کی تحریر کا کھلا تضاد ہے۔ 


عمران خان نے کئی غلطیاں کی ہوں گی۔ اس کی شخصیت میں کئی خامیاں ہو گی سچ یہ بھی ہے کہ غلطیاں نواز شریف نے بھی کی اور زرداری نے بھی۔۔کیا شہباز شریف اور احسن اقبال خامیوں سے پاک ہیں؟ مگر اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ عمران خان دیانت دار ہے ۔ پر خلوص ہے ۔ وہ لکشمی دیوی کا پجاری ہے نہ بیرون ملک جائیدادوں کے خبط میں مبتلا۔ چودھری صاحب بتائیے، اگر آپ کے مکان پر کوئی قبضہ کر لے، تو آپ کیا کریں گے؟ آپ جا کر قابض سے مذاکرات کریں گے؟ آپ اس بدمعاش سے بولیں گے کہ بھائی یہ قبضہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے؟ آپ کی جائیداد پر قابض شخص آپ سے جواب میں یہ کہے کہ بھائی میں نے آپ کے مکان پر قبضہ تو نہیں کیا۔ یہ زمین تو اللہ کی ہے۔ میں تو صرف اس زمین پر مقیم ہوں۔ میں آپ کی لفظ قبضہ کی تعریف سے اتفاق نہیں کرتا ۔ اور اگر آپ یہ کہیں کہ نہیں آپ نے میرے مکان پر قبضہ کیا ہے تو اہل محلہ آپ پر الزام لگا دیں کہ چودھری صاحب کی ہٹ دھرمی، ضد، اور انا کے باعث مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔ اس الزام پر آپ کے محسوسات کیا ہوں گے؟ ایمانداری سے کہیے کہ اس صورت میں آپ کا موقف کیا وہی نہیں ہو گا جو آج عمران خان کا ہے؟  

آپ فرماتے ہیں کہ خان صاحب کے ساڑھے پانچ مطالبات تسلیم ہو چکے۔ لہٰذا اب عمران خان کو ضد چھوڑ دینی چاہیے۔ لیکن آزاد ذرائع ابلاغ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ساڑھے پانچ مطالبات تو بہت دور کی بات ، ایک مہینے کے مذاکرات کے دوران دھاندلی کی تعریف پر بھی اتفاق نہیں ہو پایا۔ میڈیا سے وابستہ لوگ یہ دعویٰ کرتے بھی نظر آتے ہیں کہ حکومت پہلے دن سے ہی مذاکرات کی کامیابی کے لیے سنجیدہ نہیں تھی۔ بلکہ حکومت چاہتی ہے کہ مظاہرین کو تھکا تھکا کر مارا جائے۔ مگر چودھری صاحب، معذرت کے ساتھ، تصویر کے اس رخ پر نظر ڈالنے سے تو آپ کے پر جلتے ہیں۔ چودھری صاحب بتائیے کہ کیا اس ملک میں ضد کا حق صرف شریف خاندان اور آپ کی ذات کو حاصل ہے؟ آپ وکالت تو شریف خاندان کی کرتے ہیں اور اس ضد سے بھی باز نہیں آتے کہ آپ کا حق پرست غیر جانبدار صحافی سمجھا جائے! کیا ضد میں عمران خان سے کم ہیں کیا؟


بغضِ عمران پر مبنی اس کالم میں آپ عمران پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے الزام لگاتے ہیں کی خان صاحب نے غصے کو غیر شائستگی کا نیا پٹرول فراہم کر دیا۔ خان صاحب سے اختلاف رائے کا مطلب گالیاں ہیں۔ بجا فرمایا۔ مستند ہے آپ کا فرمایا ہوا۔ آپ چاہتے ہیں کہ آپ دن کو کہیں رات تو آپ کا قاری چاند ستارے دیکھنے لگے۔ آپ یہ کیسے بھول گئے کہ حالیہ سیاست میں غیر شائستگی متعارف کروانے کی سعادت عمران نے حاصل نہیں کی۔ شہباز شریف یہ مقدس فریضہ بہت پہلے انجام دے چکے۔ آپ کیسے بھول گئے شہباز شریف کے نعرے۔ وہ دن جب عالم دیوانگی میں ہر وقت چھوٹے میں یہی دھمال ڈالتے پھرتے تھے کہ  گو زرداری گو ۔ یہ چھوٹے میں ہی تھے جو یہ کہتے پھرتے تھے کہ زرداری کے گلے میں رسی ڈال کر مال روڈ پر گھسیٹوں گا۔ کیا کہتے ہیں چودھری صاحب، اس سے معاشرے میں شائستگی کا کلچر پروان چڑھا ہو گا۔ اس کو منافقت کے سوا اور کیا کہا جائے کہ شہباز شریف اگر ایک منتخب صدر کو علی بابا اور چالیس چور کہے تو اس سے معاشرے میں برداشت کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ اگر نواز شریف ججوں کی بحالی کے لیے لانگ مارچ کرے تو بہت اچھے۔ لیکن اگر تحریک انصاف اور عوامی تحریک اپنے مطالبات کی خاطر سڑکوں پر آ جائے تو جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے اور معاشرہ تباہی کے کنارے پر آ کھڑا ہوتا ہے۔ اگر کوئی آپ کے موقف پر ایمان لے آئے تو درست مگر کوئی آپ سے اختلاف کرتے ہوئے آپ کو شریف خاندان کا ترجمان قرار دے ڈالے تو وہ گالیاں بن جاتی ہیں۔ 


آپ نے عمران خان پر ملک کو لاقانونیت کی طرف لے جانے اور قانون کا رہا سہا بھرم ختم کرنے کا الزام بھی لگایا۔ لاقانونیت کی حکمرانی کا سوال آپ کو شہباز شریف سے اس وقت کرنا چاہیے تھا جب وہ آپ کے پروگرام میں رونق افروز تھے۔ مگر اس وقت تو آپ جھکی نگاہوں اور معصوم سوالات سے ہی پروگرام کی رونق بڑھاتے رہے۔ چودھری صاحب سچ تو یہ ہے کہ اس ملک میں قانون اور انصاف کے تابوت میں آخری کیل ١٧ جون کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں دن کی روشنی میں ٹھونکا گیا۔ حکمرانوں کی ایما پر لاہور کی زمین کو معصوم انسانوں کے خون سے نہلا دیا گیا۔ مگر قانون ستو پی کر سو گیا اور انصاف نے لسی پی کر بے حسی کی چادر اوڑھ لی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نوٹس لینے والی عدالتیں ایسے غائب ہو گئیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ انصاف تو دور کی بات، ایف آئی آر درج کروانے کے لیے مقتولین کے ورثا کو مہینوں دھکے کھانے پھرے لیکن آپ کو قانون کی موت نظر نہ آئی۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں حکمرانوں کے ممکنہ کردار پر انگلی اٹھی تو مشرف دور میں گنجے کیے جانے والے رانا ثنااللہ فرماتے ہیں کہ رپورٹ لکھنے والے جج کے خلاف کاروائی کی جائے گی تو نظام انصاف کو لاحق خطرات آپ کو نظر میں نہیں آتے۔ رانا ثنا اللہ توہین عدالت کے مرتکب ہوئے یا نہیں یہ تو کوئی قانون دان ہی بتا سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سے ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہو گی؟ خدا لگتی کہی جائے تو سانحہ ماڈل ٹاؤن اور اس کے بعد جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے بعد شہباز شریف کے پاس اقتدار سے چمٹے رہنے کا ہر گز کوئی جواز نہیں۔ اگر اس ملک میں جمہوریت، قانون، انصاف اور اخلاق کا کوئی وجود ہے تو شہباز شریف کو فی الفور مستعفی ہو جانا چاہیے۔ یہ بات عمران خان اور طاہر القادری کہیں تو ان پر ضدی ہونے اور 
معاشرے کو انارکی کی طرف لے جانے کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ 

جب سانحہ ماڈل ٹاون ہوا، پنجاب کے حکمرانوں کے ایک اشارے پر پنجاب پولیس کے بہادر جوانوں نے معصوم عوام کے خون کی ندیاں بہا دیں، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں پر لاٹھیوں کی بارش کردی۔ پتھر سے پتھر دل بھی توبہ توبہ کر اٹھے۔ آپ نے اس سانحہ پر ایک کالم لکھا۔ اس کالم کا عنوان تھا، یہ گلو بٹ نہیں نفرت ہے۔ آپ کے اس کالم کے دو حصے تھے۔ پہلا حصہ شاتم رسول سلمان رشدی کے بارے میں تھا۔ آپ لکھتے ہیں کہ امریکہ سلمان رشدی کی حفاظت پر لاکھوں ڈالر خرچ کرتا ہے، اس کا گھر اور گاڑی بم پروف ہے، صرف اس لیےکہ امریکہ چاہتا ہے کہ عوام کے دل میں قانون کا خوف رہے۔ دوسرا حصہ ماڈل ٹاون کے بدنام زمانہ کردار گلو بٹ کے بارے میں تھا۔ آپ نے لکھا کہ "گلو بٹ نے جس انداز میں گاڑیاں توڑیں، یہ رویہ نارمل نہیں، یہ نفرت تھی، یہ گلو بٹ کی نظام، حکمرانوں، اشرافیہ اور گاڑیوں کے خلاف وہ نفرت تھی جو قطرہ قطرہ بن کر اس کے جسم میں جمع ہوتی رہی۔ جب اسے یہ نفرت اگلنے کا موقع ملا تو اس نے ڈنڈا اٹھایا اور گاڑیاں توڑ دیں۔" آپ مزید فرماتے ہیں کہ "آپ گلو بٹ کی فوٹیج کوبار بار دیکھیں، آپ کو اس ملک کے ہر غریب شخص کے اندر ایک گلو بٹ کھولتا ہوا ملے گا، یہ گلو بٹ بھی لاہور کے گلو بٹ کی طرح اس ملک میں تعیش کی ہر چیز کو نابود کر دینا چاہتے ہیں، بس یہ اپنے اپنے حصے کے 17 جون کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ جس دن اپنے حصے کے 17 جون تک پہنچیں گے، یہ بھی گلو بٹ ثابت ہوں گے۔''

آپ ضد کرتے ہیں تو مان لیتے ہیں کہ آپ کا قلم سچ لکھتا ہے، زبان صرف سچ کہتی ہے، آپ جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے سے باز نہیں آتے۔ کہنا تو صرف یہ ہے کہ حضور آپ کی منطق بجا، آپ کا کہنا سر آنکھوں پر، مانا کہ گلو بٹ شہبازشریف کا پالتو غنڈہ نہیں تھا، یہ بھی مانا کہ گلو بٹ پولیس ٹاوٹ اور بدمعاش نہیں تھا، اسے شریفوں کی تھپکی نہیں تھی۔ مگر جناب، اجازت ہو تو ایک سوال کر لوں؟ آپ نے گلو بٹ پر تو پورا کالم لکھ مارا، لیکن اس کالم کے کسی کونے کھدرے میں بھی آپ ماڈل ٹاون میں ہونے والے قتل عام کی مذمت تک بھی نہ کر سکے۔ مانا مجبوریاں ہوتی ہیں، کچھ باتیں براہ راست نہیں کی جا سکتیں۔ مگر آپ تو آج کے سقراط ہیں، الفاظ اور تخیل کے بادشاہ ہیں، دبے لفظوں میں ہی مذمت کر ڈالتے، کسی آئندہ کالم میں ہی لکھ ڈالتے کہ ناحق خون بہایا گیا، اس قتل عام کی آزادانہ تفتیش کی جائے۔ مگر نہیں۔ آپ کو نہتی عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں کا بہتا لہو دکھائی دیا نہ زخمیوں کی چیخیں سنائی دیں۔ آپ اپنے دفتر میں بیٹھ کر صرف یہی قوالی کرتے رہ گئے، میں حق لکھتا ہوں، میں سچ کہتا ہوں۔ 

آج کا بھیانک ترین سچ تو یہ ہے کہ آج پاکستان، اسلامی جمہوریہ شریفیہ بن چکا ہے۔ وہ تمام لوگ جن کے مفادات مملکت شریفیہ سے وابستہ ہیں ایک طرف ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو پاکستان کو اس قبضہ گروپ سے آزاد کروانا چاہتے ہیں۔ جہاں تک عوام کی اکثریت کا تعلق ہے تو اس بات پر اکثریت کا یقین اور اتفاق ہے کہ عمران خان مخلص، سچا اور دیانت دار راہنما ہے۔ اسلام آباد دھرنے کے دوران ڈیرہ اسماعیل خان، جہاں مولانا ڈیزل کے نام سے معروف مولانا فضل الرحمٰن کا ووٹ بھی رجسٹرڈ ہے، کے ایک ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کے امیدوار کی کامیابی اس کا روشن ثبوت ہے۔ گذشتہ ڈیڑھ سال میں عمران خان کے سیاسی کردار کا تجزیہ کیا جائے تو اس کو ضدی اور ہٹ دھرم کہنا اس کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ آج نواز شریف جو بھی ہے، بہرحال آرمی کے گملے میں اگا ہوا ایک پودا ہے۔ جبکہ دوسری طرف عمران اپنی جہد مسلسل اور انتھک محنت سے موجودہ مقام پر پہنچنے والا سیاستدان ہے۔ 


آخر پر صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ اپنی تحریروں کی وساطت سے آپ نے خود کو اسلامی جمہوریہ شریفیہ کا وفادار ترجمان ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ بات کسی بھی شک سے بالاتر ہے کہ آپ اچھا لکھتے ہیں۔ مگر یہ بھی اپنی جگہ سچ ہے کہ آپ محترم عطاالحق قاسمی اور محترم عرفان صدیقی کی امامت میں اپنی صحافتی نماز ادا کرتے ہیں۔ میں آپ کا کالموں کا قاری تھا اور علم و دانش کے موتیوں کی تلاش میں آپ کی تحریروں کا قاری رہوں گا۔ تاہم جہاں تک سیاسی موضوعات کا تعلق ہے تو دیگر قارئین کی طرح یہ بات میرے علمی ایمان کا حصہ بن چکی ہے کہ آپ کا قلم رائےونڈ محل کے چشموں سے پھوٹنےوالے مقدس پانیوں میں غسل کے بعد لب کشائی کرتا ہے۔ میرے نزدیک آپ شریف خاندان کے ترجمان ہیں۔ آپ میرے لیے محترم ہیں اور رہیں گے۔ گذارش صرف اتنی ہے کہ غیر جانبدار لکھاری ہونے کی ضد اب چھوڑ دیجیے!