Showing posts with label column. Show all posts
Showing posts with label column. Show all posts

An Open Letter to Javed Chaudhry - جاوید چودھری کے نام کھلا خط

This Urdu letter is a response to Javed Chaudhry’s Urdu column published in Daily Express on 14 September 2014. In his column, Mr Chaudhry grumbled over the verbal abuse by PIT’s supporters and sympathizers only due to his unbiased and impartial analyses. In this Open Letter To Javed Chaudhry, the author of the letter tried to reply some of the questions put forward by Javed Chaudhry and see if he has really been impartial and unbiased over the recent years.


محترم جاوید چودھری صاحب

السلام علیکم و رحمتہ اللہ

آپ کا کالم ، عمران خان کے لیے، نظر سے گذرا۔ اس تحریر نے آپ نے عمران خان کے خوب لتے لیے۔ خان صاحب کے حلقہ ارادت میں شامل ہونے سے لے کر خان صاحب سے وابستہ توقعات کے ٹوٹنے تک کے سفر کو بہت تفصیل سے بیان کیا۔ آخر میں آپ نے قارئین کو گالیاں دینے کی دعوت دی۔ کسی کو اختلاف رائے کی بنیاد پر گالیاں دینا ایک غلط عمل ہے۔ آپ نے ایک غلط عمل کی حوصلہ افزائی اور سہولت فراہم کرنے کی خاطر دو عدد موبائل نمبرز بھی فراہم کر دئیے۔ جزاک اللہ۔ تاہم میرا مشاہدہ یہ ہے کہ میڈیا سے وابستہ لوگوں کے لیے گالیاں اور تعریفیں دونوں ہی فائدہ مند ہوتی ہیں اور ریٹنگ بڑھانے کا باعث بنتی ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ کا مطمح نظر ہر گز یہ نہیں ہو گا۔ 




سب سے پہلے تو یہ اعتراف کہ میں آپ کے کالموں پر باقاعدگی سے نظر ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ آپ مبالغہ آرائی کے فن کے شہنشاہ ہیں ۔ آپ مبالغہ آرائی کو بھی مبالغہ آرائی کی آخری انتہا تک پہنچا دیتے ہیں۔ آپ  رائی کو پہاڑ نہیں بلکہ سلسلہ کوہ ہمالیہ بنا دیتے ہیں۔ تاہم یہ اعتراف بھی ہے کہ رائی کا وہ ذرہ جس پر آپ کوہ ہمالیہ کی بناد رکھتے ہیں اکثر اوقات باسیدہ اوقات میں ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہوتا ہے۔ اس میں سیکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے

اب بات کرتے ہیں عمران خان صاحب کے حلقہ ارادت میں آپ کی شمولیت کی۔ میں آپ کی اس بات پر یقین کرنا چاہتا ہوں۔ مگر کیا کیجیے کہ میں آپ کا ایک انٹرویو نہیں بھول سکتا۔ اس نشست میں وزیر اعلیٰ پنجاب آپ کے مہمان تھے۔ صحیح ترین الفاظ میں آپ میاں صاحب کے مہمان لگ رہے تھے۔ آپ وہ انٹرویو دوبارہ دیکھ سکتے ہیں۔ اگر غیر جانبداری آپ کی نظر میں ذرہ بھی اہمیت رکھتی ہے تو آپ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ آپ نے وہ سوالات نہ کیے جو بطور صحافی آپ کا فرض منصبی تھا۔ آپ نے شہباز شریف کو کھلی چھٹی دی کہ وہ اپنی بے منطق گفتگو اور بے ربط سفید جھوٹ آپ کے پروگرام کے ذریعے عوام تک پہنچا سکیں۔ کچھ صاحبان رائے کا ماننا یہ بھی ہے کہ اس سے زیادہ فرینڈلی انٹرویو شائد ہی پاکستان میں ممکن ہو ۔ حالانکہ بقول آپ کے اس وقت تک آپ خان صاحب کے حلقہ ارادت میں شامل تھے۔ 


مجھے آپ کا وہ کالم بھی بھلائے نہیں بھولتا جس میں آپ نے اپنا زور تحریر یہ ثابت کرنے پر صرف کر دیا کہ اسحٰق ڈار ایک ایسے عاشقِ رسول ہیں جن کے لبوں پر ہر وقت درود و سلام کے پھول کھلتے ہیں۔ آپ نے قارئین کو یہ باور کرانے کی بھی کوشش کی کہ اب پاکستانی عوام کے حالات بدلنے ہی والے ہیں کیونکہ اب ہمیں ایسا وزیر خزانہ مل گیا ہے جس پر عوام کی حالت بدلنے کے لیے دن رات کام کرنے کا جنون سوار ہے ۔ آپ نے بھول کر بھی یہ بھی انکشاف کرنے کی غلطی نہیں کی کہ یہ وہی وزیر خزانہ ہے جو ماضی میں شریف خاندان کے لیے منی لانڈرنگ جیسے جرم میں ملوث رہا ۔ آپ نے عوام کو یہ نہیں بتایا کہ ہمارا یہ وزیر خزانہ صرف اور صرف ٹیکس بچانے کے لیے اپنی جمع پونجی اپنے بیٹے کو بطور قرض حسنہ دے دیتا ہے ۔ بطور صحافی آپ کا فرض تھا کہ آپ اس طرف توجہ دلاتے کہ اسحٰق ڈار ایک چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ ہیں ایک اکانومسٹ نہیں۔ اکاؤنٹنٹ کو اردو میں منشی کہا جا سکتا ہے جس کا کام حساب کتاب رکھنا ہوتا ہے۔ اگر آپ غیر جانبدار ہوتے تو یہ سوال اٹھاتے کہ ایک منشی معیشت کہ بہتری میں کس حد تک کردار ادا کر سکتا ہے۔ جبکہ آپ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ایک مولوی ایک اچھا سرجن بننے جا رہا ہے۔ اسی کالم میں آپ نے نواز شریف کو درد دل کی دولت سے مالا مال انسان قرار دیا۔ آپ نے ان کو شرافت، عاجزی اور انسان دوستی کا ماؤنٹ ایورسٹ بنا ڈالا۔ آپ نے ایک واقعہ لکھا کہ کس طرح میاں صاحب نے صرف غصہ نہ آنے کی وجہ سے گاڑی رکوائی اور باہر نکل کر گرو و غبار سے اٹی زمین پر نوافلِ شکرانہ ادا کیے ۔ یہ کالم ٢٠١٣ میں لکھا گیا۔ اس تحریر کا ایک ایک لفظ عشقِ نواز کی صدا دیتا ہے۔ ایک سچے مرید کے دو مرشد نہیں ہوتے ۔ اگر ٢٠١٣ میں آپ نواز شریف اور اسحٰق ڈار کے مرید تھے تو آپ کے زیر بحث کالم میں اگست ٢٠١٤ تک عمران خان کے حلقہ ارادت میں شامل رہنے کا دعویٰ بے بنیاد ہے ۔ جھوٹ ہے ۔ آپ کی تحریر کا کھلا تضاد ہے۔ 


عمران خان نے کئی غلطیاں کی ہوں گی۔ اس کی شخصیت میں کئی خامیاں ہو گی سچ یہ بھی ہے کہ غلطیاں نواز شریف نے بھی کی اور زرداری نے بھی۔۔کیا شہباز شریف اور احسن اقبال خامیوں سے پاک ہیں؟ مگر اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ عمران خان دیانت دار ہے ۔ پر خلوص ہے ۔ وہ لکشمی دیوی کا پجاری ہے نہ بیرون ملک جائیدادوں کے خبط میں مبتلا۔ چودھری صاحب بتائیے، اگر آپ کے مکان پر کوئی قبضہ کر لے، تو آپ کیا کریں گے؟ آپ جا کر قابض سے مذاکرات کریں گے؟ آپ اس بدمعاش سے بولیں گے کہ بھائی یہ قبضہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے؟ آپ کی جائیداد پر قابض شخص آپ سے جواب میں یہ کہے کہ بھائی میں نے آپ کے مکان پر قبضہ تو نہیں کیا۔ یہ زمین تو اللہ کی ہے۔ میں تو صرف اس زمین پر مقیم ہوں۔ میں آپ کی لفظ قبضہ کی تعریف سے اتفاق نہیں کرتا ۔ اور اگر آپ یہ کہیں کہ نہیں آپ نے میرے مکان پر قبضہ کیا ہے تو اہل محلہ آپ پر الزام لگا دیں کہ چودھری صاحب کی ہٹ دھرمی، ضد، اور انا کے باعث مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔ اس الزام پر آپ کے محسوسات کیا ہوں گے؟ ایمانداری سے کہیے کہ اس صورت میں آپ کا موقف کیا وہی نہیں ہو گا جو آج عمران خان کا ہے؟  

آپ فرماتے ہیں کہ خان صاحب کے ساڑھے پانچ مطالبات تسلیم ہو چکے۔ لہٰذا اب عمران خان کو ضد چھوڑ دینی چاہیے۔ لیکن آزاد ذرائع ابلاغ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ساڑھے پانچ مطالبات تو بہت دور کی بات ، ایک مہینے کے مذاکرات کے دوران دھاندلی کی تعریف پر بھی اتفاق نہیں ہو پایا۔ میڈیا سے وابستہ لوگ یہ دعویٰ کرتے بھی نظر آتے ہیں کہ حکومت پہلے دن سے ہی مذاکرات کی کامیابی کے لیے سنجیدہ نہیں تھی۔ بلکہ حکومت چاہتی ہے کہ مظاہرین کو تھکا تھکا کر مارا جائے۔ مگر چودھری صاحب، معذرت کے ساتھ، تصویر کے اس رخ پر نظر ڈالنے سے تو آپ کے پر جلتے ہیں۔ چودھری صاحب بتائیے کہ کیا اس ملک میں ضد کا حق صرف شریف خاندان اور آپ کی ذات کو حاصل ہے؟ آپ وکالت تو شریف خاندان کی کرتے ہیں اور اس ضد سے بھی باز نہیں آتے کہ آپ کا حق پرست غیر جانبدار صحافی سمجھا جائے! کیا ضد میں عمران خان سے کم ہیں کیا؟


بغضِ عمران پر مبنی اس کالم میں آپ عمران پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے الزام لگاتے ہیں کی خان صاحب نے غصے کو غیر شائستگی کا نیا پٹرول فراہم کر دیا۔ خان صاحب سے اختلاف رائے کا مطلب گالیاں ہیں۔ بجا فرمایا۔ مستند ہے آپ کا فرمایا ہوا۔ آپ چاہتے ہیں کہ آپ دن کو کہیں رات تو آپ کا قاری چاند ستارے دیکھنے لگے۔ آپ یہ کیسے بھول گئے کہ حالیہ سیاست میں غیر شائستگی متعارف کروانے کی سعادت عمران نے حاصل نہیں کی۔ شہباز شریف یہ مقدس فریضہ بہت پہلے انجام دے چکے۔ آپ کیسے بھول گئے شہباز شریف کے نعرے۔ وہ دن جب عالم دیوانگی میں ہر وقت چھوٹے میں یہی دھمال ڈالتے پھرتے تھے کہ  گو زرداری گو ۔ یہ چھوٹے میں ہی تھے جو یہ کہتے پھرتے تھے کہ زرداری کے گلے میں رسی ڈال کر مال روڈ پر گھسیٹوں گا۔ کیا کہتے ہیں چودھری صاحب، اس سے معاشرے میں شائستگی کا کلچر پروان چڑھا ہو گا۔ اس کو منافقت کے سوا اور کیا کہا جائے کہ شہباز شریف اگر ایک منتخب صدر کو علی بابا اور چالیس چور کہے تو اس سے معاشرے میں برداشت کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ اگر نواز شریف ججوں کی بحالی کے لیے لانگ مارچ کرے تو بہت اچھے۔ لیکن اگر تحریک انصاف اور عوامی تحریک اپنے مطالبات کی خاطر سڑکوں پر آ جائے تو جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے اور معاشرہ تباہی کے کنارے پر آ کھڑا ہوتا ہے۔ اگر کوئی آپ کے موقف پر ایمان لے آئے تو درست مگر کوئی آپ سے اختلاف کرتے ہوئے آپ کو شریف خاندان کا ترجمان قرار دے ڈالے تو وہ گالیاں بن جاتی ہیں۔ 


آپ نے عمران خان پر ملک کو لاقانونیت کی طرف لے جانے اور قانون کا رہا سہا بھرم ختم کرنے کا الزام بھی لگایا۔ لاقانونیت کی حکمرانی کا سوال آپ کو شہباز شریف سے اس وقت کرنا چاہیے تھا جب وہ آپ کے پروگرام میں رونق افروز تھے۔ مگر اس وقت تو آپ جھکی نگاہوں اور معصوم سوالات سے ہی پروگرام کی رونق بڑھاتے رہے۔ چودھری صاحب سچ تو یہ ہے کہ اس ملک میں قانون اور انصاف کے تابوت میں آخری کیل ١٧ جون کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں دن کی روشنی میں ٹھونکا گیا۔ حکمرانوں کی ایما پر لاہور کی زمین کو معصوم انسانوں کے خون سے نہلا دیا گیا۔ مگر قانون ستو پی کر سو گیا اور انصاف نے لسی پی کر بے حسی کی چادر اوڑھ لی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نوٹس لینے والی عدالتیں ایسے غائب ہو گئیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ انصاف تو دور کی بات، ایف آئی آر درج کروانے کے لیے مقتولین کے ورثا کو مہینوں دھکے کھانے پھرے لیکن آپ کو قانون کی موت نظر نہ آئی۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں حکمرانوں کے ممکنہ کردار پر انگلی اٹھی تو مشرف دور میں گنجے کیے جانے والے رانا ثنااللہ فرماتے ہیں کہ رپورٹ لکھنے والے جج کے خلاف کاروائی کی جائے گی تو نظام انصاف کو لاحق خطرات آپ کو نظر میں نہیں آتے۔ رانا ثنا اللہ توہین عدالت کے مرتکب ہوئے یا نہیں یہ تو کوئی قانون دان ہی بتا سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سے ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہو گی؟ خدا لگتی کہی جائے تو سانحہ ماڈل ٹاؤن اور اس کے بعد جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے بعد شہباز شریف کے پاس اقتدار سے چمٹے رہنے کا ہر گز کوئی جواز نہیں۔ اگر اس ملک میں جمہوریت، قانون، انصاف اور اخلاق کا کوئی وجود ہے تو شہباز شریف کو فی الفور مستعفی ہو جانا چاہیے۔ یہ بات عمران خان اور طاہر القادری کہیں تو ان پر ضدی ہونے اور 
معاشرے کو انارکی کی طرف لے جانے کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ 

جب سانحہ ماڈل ٹاون ہوا، پنجاب کے حکمرانوں کے ایک اشارے پر پنجاب پولیس کے بہادر جوانوں نے معصوم عوام کے خون کی ندیاں بہا دیں، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں پر لاٹھیوں کی بارش کردی۔ پتھر سے پتھر دل بھی توبہ توبہ کر اٹھے۔ آپ نے اس سانحہ پر ایک کالم لکھا۔ اس کالم کا عنوان تھا، یہ گلو بٹ نہیں نفرت ہے۔ آپ کے اس کالم کے دو حصے تھے۔ پہلا حصہ شاتم رسول سلمان رشدی کے بارے میں تھا۔ آپ لکھتے ہیں کہ امریکہ سلمان رشدی کی حفاظت پر لاکھوں ڈالر خرچ کرتا ہے، اس کا گھر اور گاڑی بم پروف ہے، صرف اس لیےکہ امریکہ چاہتا ہے کہ عوام کے دل میں قانون کا خوف رہے۔ دوسرا حصہ ماڈل ٹاون کے بدنام زمانہ کردار گلو بٹ کے بارے میں تھا۔ آپ نے لکھا کہ "گلو بٹ نے جس انداز میں گاڑیاں توڑیں، یہ رویہ نارمل نہیں، یہ نفرت تھی، یہ گلو بٹ کی نظام، حکمرانوں، اشرافیہ اور گاڑیوں کے خلاف وہ نفرت تھی جو قطرہ قطرہ بن کر اس کے جسم میں جمع ہوتی رہی۔ جب اسے یہ نفرت اگلنے کا موقع ملا تو اس نے ڈنڈا اٹھایا اور گاڑیاں توڑ دیں۔" آپ مزید فرماتے ہیں کہ "آپ گلو بٹ کی فوٹیج کوبار بار دیکھیں، آپ کو اس ملک کے ہر غریب شخص کے اندر ایک گلو بٹ کھولتا ہوا ملے گا، یہ گلو بٹ بھی لاہور کے گلو بٹ کی طرح اس ملک میں تعیش کی ہر چیز کو نابود کر دینا چاہتے ہیں، بس یہ اپنے اپنے حصے کے 17 جون کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ جس دن اپنے حصے کے 17 جون تک پہنچیں گے، یہ بھی گلو بٹ ثابت ہوں گے۔''

آپ ضد کرتے ہیں تو مان لیتے ہیں کہ آپ کا قلم سچ لکھتا ہے، زبان صرف سچ کہتی ہے، آپ جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے سے باز نہیں آتے۔ کہنا تو صرف یہ ہے کہ حضور آپ کی منطق بجا، آپ کا کہنا سر آنکھوں پر، مانا کہ گلو بٹ شہبازشریف کا پالتو غنڈہ نہیں تھا، یہ بھی مانا کہ گلو بٹ پولیس ٹاوٹ اور بدمعاش نہیں تھا، اسے شریفوں کی تھپکی نہیں تھی۔ مگر جناب، اجازت ہو تو ایک سوال کر لوں؟ آپ نے گلو بٹ پر تو پورا کالم لکھ مارا، لیکن اس کالم کے کسی کونے کھدرے میں بھی آپ ماڈل ٹاون میں ہونے والے قتل عام کی مذمت تک بھی نہ کر سکے۔ مانا مجبوریاں ہوتی ہیں، کچھ باتیں براہ راست نہیں کی جا سکتیں۔ مگر آپ تو آج کے سقراط ہیں، الفاظ اور تخیل کے بادشاہ ہیں، دبے لفظوں میں ہی مذمت کر ڈالتے، کسی آئندہ کالم میں ہی لکھ ڈالتے کہ ناحق خون بہایا گیا، اس قتل عام کی آزادانہ تفتیش کی جائے۔ مگر نہیں۔ آپ کو نہتی عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں کا بہتا لہو دکھائی دیا نہ زخمیوں کی چیخیں سنائی دیں۔ آپ اپنے دفتر میں بیٹھ کر صرف یہی قوالی کرتے رہ گئے، میں حق لکھتا ہوں، میں سچ کہتا ہوں۔ 

آج کا بھیانک ترین سچ تو یہ ہے کہ آج پاکستان، اسلامی جمہوریہ شریفیہ بن چکا ہے۔ وہ تمام لوگ جن کے مفادات مملکت شریفیہ سے وابستہ ہیں ایک طرف ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو پاکستان کو اس قبضہ گروپ سے آزاد کروانا چاہتے ہیں۔ جہاں تک عوام کی اکثریت کا تعلق ہے تو اس بات پر اکثریت کا یقین اور اتفاق ہے کہ عمران خان مخلص، سچا اور دیانت دار راہنما ہے۔ اسلام آباد دھرنے کے دوران ڈیرہ اسماعیل خان، جہاں مولانا ڈیزل کے نام سے معروف مولانا فضل الرحمٰن کا ووٹ بھی رجسٹرڈ ہے، کے ایک ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کے امیدوار کی کامیابی اس کا روشن ثبوت ہے۔ گذشتہ ڈیڑھ سال میں عمران خان کے سیاسی کردار کا تجزیہ کیا جائے تو اس کو ضدی اور ہٹ دھرم کہنا اس کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ آج نواز شریف جو بھی ہے، بہرحال آرمی کے گملے میں اگا ہوا ایک پودا ہے۔ جبکہ دوسری طرف عمران اپنی جہد مسلسل اور انتھک محنت سے موجودہ مقام پر پہنچنے والا سیاستدان ہے۔ 


آخر پر صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ اپنی تحریروں کی وساطت سے آپ نے خود کو اسلامی جمہوریہ شریفیہ کا وفادار ترجمان ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ بات کسی بھی شک سے بالاتر ہے کہ آپ اچھا لکھتے ہیں۔ مگر یہ بھی اپنی جگہ سچ ہے کہ آپ محترم عطاالحق قاسمی اور محترم عرفان صدیقی کی امامت میں اپنی صحافتی نماز ادا کرتے ہیں۔ میں آپ کا کالموں کا قاری تھا اور علم و دانش کے موتیوں کی تلاش میں آپ کی تحریروں کا قاری رہوں گا۔ تاہم جہاں تک سیاسی موضوعات کا تعلق ہے تو دیگر قارئین کی طرح یہ بات میرے علمی ایمان کا حصہ بن چکی ہے کہ آپ کا قلم رائےونڈ محل کے چشموں سے پھوٹنےوالے مقدس پانیوں میں غسل کے بعد لب کشائی کرتا ہے۔ میرے نزدیک آپ شریف خاندان کے ترجمان ہیں۔ آپ میرے لیے محترم ہیں اور رہیں گے۔ گذارش صرف اتنی ہے کہ غیر جانبدار لکھاری ہونے کی ضد اب چھوڑ دیجیے!