Showing posts with label foreign office pakistan. Show all posts
Showing posts with label foreign office pakistan. Show all posts

وزیر خارجہ کی خالی آسامی کے لیے ایک عرضی


وزیر خارجہ کی خالی آسامی کے لیے ایک عرضی


بخدمت جناب وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان

جناب عالی

مودبانہ گذارش ہے کہ جب سے آپ نے پردھان منتری کا منصب سنبھالا ہے ہمارا عظیم ترین اسلامی جمہوریہ ایک عدد وزیر خارجہ سے محروم چلا آ رہا ہے۔ چنانچہ ایک طرف تو قومی خزانے کو تنخواہ اور دیگر مراعات کے ضمن میں ٹیکہ نہیں لگ پا رہا تو دوسری طرف اس وزارت کی ذمہ داریاں بھی آپ کے نرم ونازک کاندھوں پر ہے۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اب آپ کے کاندھے یہ بوجھ اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہوں گے۔ میں آپ کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ فدوی کی موجودگی میں اب آپ کو مزید ہلکان ہونے کی ضرورت نہ ہے۔ آئندہ سطور میں یہ واضح کرنے کہ آخر کیوں میں خود کو وزیر خارجہ کی نوکری کے لیے اہل ترین امیدوار پاتا ہوں۔

خدا لگتی کہوں تو تمام تر تلاش کے باوجود مجھے اپنے عظیم ترین اسلامی جمہورئیے کے اصلی اور ایک نمبر پردھان منتری کا سراغ نہیں مل سکا۔ آج تک سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ کے ہوتے ہوئے یہ ملک چل کیسے رہا ہے۔ تنگ آ کر وزیر اعظم ہاوس کی جانے والے تمام کھرے ناپے تو پتہ چلا کہ وزیر اعظم کی کرسی کسی غریب کی خوبرو بیوی کی طرح سب کی بھابھی بن چکی۔ جس کا ڈنڈا، اس کا راج۔ چڑھتے سورج کی پوجا میرا بھی سیاسی ایمان ہے۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ جو بھی وزیر اعظم کی کرسی پر اپنی متبرک تشریف رکھے گا، اس کی ذاتی وفاداری اور خدمت گذاری میں کوئی وزیر میرا مقابلہ نہیں کر سکےگا۔ آپ ایک قدر دان آدمی ہیں، امید ہے کہ آپ ہیرے کی قدر کرنے میں کوئی کنجوسی نہیں دکھائیں گے۔

وزیر خارجہ کے منصب کے لیے میری دوسری بڑی خوبی میری سستی اور کاہلی ہے۔ ادھر شام ڈھلی، ادھر ہماری آنکھیں بند ہوئیں۔ سورج سوا نیزے پر آتا ہے تو آنکھ کھلتی ہے۔ چونکہ اس میدان میں آپ کو اپنا مرشد اور امام سمجھتا ہوں اس لیے کبھی وزیر اعظم کی کرسی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ ہاں، آپ ایوان صدر میں بٹھا دیتے تو کیا ہی بات تھی۔ مگر، شکست تسلیم۔ قصر صدارت کے موجودہ مکین بازی مار گئے۔ مگر ہم نے بھی خوشامد اور چاپلوسی کے میدان میں انہیں مات دینے کا پکا تہیہ کیا ہوا ہے۔ جہاں تک میری سستی کا تعلق ہے تو یقین کیجیے کہ جب سے آپ نے حکومت سنبھالی ہے، یہ عرضی لکھ رہا ہوں جو آج آ کر ختم ہوئی۔ جانتا ہوں کہ وزیر خارجہ کی کرسی پر آپ کی دختر نیک اختر کا پیدائشی حق ہے۔ لیکن جب تک انہیں سائیڈ پوز میں ایسی تصویر بنوانے کے مشق نہیں ہو جاتی جس سے بے نظیر بھٹو کی یاد تازہ ہو جائے، اس وقت تک یہ خاکسار وزیر خارجہ بن کر اکڑتا پھرے تو اس میں مضائقہ کیا ہے؟

میری تیسری سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مجھے بالکل پتہ نہیں کہ ایک وزیر خارجہ کرتا کیا ہے۔ اس کی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں، میرے فرشتے بھی نہیں جانتے۔ اس ضمن میں ہمارے وچار آپ کے نیک خیالات سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ اب اگر انسان نے صدر، وزیر اعظم، وزیر اعلی، گورنر یا وزیر خارجہ بن کر بھی کام ہی کرنا ہے تو اس سارے جھنجھٹ میں پڑنے کا فائدہ۔ چنانچہ، وزیر خارجہ کی کرسی کے لیے میں اس لیے بھی بہترین ہوں کہ میں عملی طور پر کچھ کرنے کا اہل ہی نہیں۔ ہاں، وزیر خارجہ کے آراستہ دفتر میں ضرور بیٹھ سکتا ہوں۔ پروٹوکول کی گاڑیوں کے درمیان ایک بڑی سی گاڑی میں سفر کرنا میرا محبوب مشغلہ ہو سکتا ہے۔ آپ کے حکم ہو اور سرکاری خزانے کا منہ کھلا ہو تو میں وسیع تر قومی مفاد کی خاطر پوری دنیا کا سفر کر سکتا ہوں۔ کاغذ، قلم، کتاب، اور اخبار سے مجھے بھی چڑ ہے۔ آپ جیسی صلاحیت بھی نہیں کی سنجیدہ سا منہ بنا کر ٹی وی پر ایویں ای مدبر اور سنجیدہ سیاستدان نظر آنے کی اداکاری کر سکوں۔ اگر آپ مجھے وزیر خارجہ بنا دیں گے تو اور کچھ بھی نہ کر سکا، ایک کونے میں مصلیٰ ڈال کر آپ اور آپ کے خاندان کے لمبے اقتدار کے لیے دعائیں ضرور کرتا رہوں گا۔

آپ یہ مت سوچیے گا کہ میں بالکل ہی نکما ہوں اور وزیر خارجہ بن کر کچھ بھی نہیں کروں گا۔ جی نہیں۔ میں نے پوری تیاری کر رکھی ہے۔ خادم اعلیٰ کے گذشتہ سات سالوں کی تمام تر بڑھکوں کا رٹا لگا رکھا ہے۔ اگر کوئی والد بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر اپنے بچوں کی جان لے لے گا تو اس کے ہاں تعزیت پر جا کر اس کو یاد دلاوں گا کہ بد ترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ ہر ہفتے ایک بیان جاری کرنا ہے کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔ ہر مہینے ایک بھاشن دینا ہے کہ پاکستان نے جنوبی ایشیا میں باوقار کردار ادا کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ ہر دوسرے تیسرے دن عوام سے وعدہ کرنا ہے کہ اگلے چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔ کبھی کبھی اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کر کے ان کو بتانا ہے کہ پاکستان برادر اسلامی ممالک سے برادرانہ تعلقات پر یقین رکھتا ہے۔ اگر مغربی ممالک لفٹ کروائیں تو ان کو بتانا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پر عزم ہے۔ ہر صبح ایک پریس ریلیز جاری کرنی ہے اور عوام کو بتانا ہے کہ بے خبرو دیکھ لو، ہمارے ملک کی عزت اقوام عالم میں بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ ہر ہفتے لندن پلان کی قوالی۔ ہر ٹی وی شو میں تحریک انصاف پر تبرا بھیجنا۔ فوجی قیادت اور آپریشن ضرب عضب کی تعریف ہفتے میں باقاعدگی سے دو بار تعریف۔ دیکھ لیا میاں جی۔ خارجہ امور میں کتنے کائیاں ہیں ہم۔۔

میری ان گنت خوبیوں میں ایک خوبی اور بھی ہے اور میرا خیال ہے کہ وزیر خارجہ کی کرسی کے لیے یہ خوبی فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ آپ یہ جان کر بہت خوش ہوں گے کہ اگر تذکرہ پاکستان کی مسلح افواج کا ہو تو میرا چہرہ غصے سے لال ہو جاتا ہے، زبان گز بھر لمبی ہو جاتی ہے، سننے والے کو لگتا ہے کہ میں اپنے ملک کی فوج کے بارے میں نہیں بلکہ اسرائیل کی فوج کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ جبکہ دوسری طرف، ذکر اگر بھارت کا ہو تو خواہ مخواہ میرے چہرے پر محبت اور وارفتگی کے تاثرات آ جاتے ہیں۔ مودی سرکار پاکستان کے بارے میں زہر بھی اگلے تو میرے ہونٹ دوستی اور شانتی کی تسبیح کرتے نہیں تھکتے۔ معاملہ بین الاقوامی طاقتوں کا ہو تو زبان بند ہو جاتی ہے اور کان احکامات سننے کے لیے بے تاب ہو جاتے ہیں۔ اب ایمانداری سے بتائیے گا کا میرا وزیر خارجہ بننا آپ کے طوالت اقتدار کے لیے کس قدر مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

اگر میں اپنی خوبیاں یونہی گنواتا رہا تو یہ ایک کتاب بن جائے گی۔ اب ایک تو آپ کتاب کو بھارت اور اسرائیل سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں تو یونہی قلم گھسیٹنے سے فائدہ۔ یقین کیجیے، وزیر خارجہ کی خالی آسامی کے لیے مجھ سے بہتر شخص روئے زمین پر نہیں ملے گا۔ ویسے بھی مجھے یقین ہے کہ وزیر خارجہ کی کرسی صرف اس لیے خالی پڑی ہے کہ آپ کو میری ہی تلاش تھی۔ براہ کرم، خاکسار کو فی الفور وزیر خارجہ تعینات کر کے ممنون احسان فرمائیں۔۔

العارض
قیصر ایم چوہدری، خود ساختہ خادم آستانہ عالیہ شریفیہ، پیرس