اسلامی جمہوریہ شریفیہ میں گورنر کی تعیناتی کی کہانی




اسلامی جمہوریہ شریفیہ کے غیور شہریوں کے مبارک، جمہوریہ شریفیہ کے سب سے بڑے صوبے کے با غیرت اور با شعور عوام کو سلامت۔ پاکستان کے ہر دل عزیز راہنما، قائد اعظم ثانی، نیلسن منڈیلا ثانی، صلاح الدین ایوبی ثانی، فخر ایشیا، سرمایہ کارِسعودیہ و برطانیہ، اعلیٰ حضرت بڑے میاں نے طویل غور و فکر اور سوچ بچار کے بعد پنجابی عوام کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ایک عدد گورنر کی تعیناتی کا تاریخ ساز فیصلہ کر لیا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ اس کارِ عظیم کے صلے میں تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ عوام کو یہ بھی یقین بھی ہونا چاہیے کہ نئے گورنر کی تعیناتی کے بعد پنجاب کے ہر شہر میں دودھ اور شہد کی ایک ایک نہر پھوٹے گی۔ ہر گلی میں امن کا طوطی بولا کرے گا۔ ہر چوک پر شانتی بین بجایا کرے گی اور نو من تیل ساتھ لیے رادھا ناچا کرے گی۔ جو ناہنجار اس پر شک کرے، ہمارے علمائے کرام کو اسے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہونی چاہیے۔ 

تفصیلات کے مطابق سابق گورنر پنجاب گورنر کی حقیقی ذمہ داریوں سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے کفران نعمت کے بار بار مرتکب ہو رہے تھے۔ جب ان کو اپنے اس گناہ عظیم کا احساس ہوا تو وہ اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو گئے اور آج کل کفارے کے طور پر لندن کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ یوں ان کی رخصتی کے بعد پنجاب کے گورنر کی کرسی خالی پڑی تھی۔ گورنر کے دفتر میں بھی الو بولنا شروع ہو چکے تھے۔ گورنر ہاؤس کی غلام گردشوں میں ویرانی ناچ رہی تھی۔ دنیا سوال کر رہی تھی کہ جو حکومت ایک عدد گورنر بھی تعینات نہیں کر سکتی، وہ دہشت گردوں کا مقابلہ خاک کرے گی۔ سب سے بڑھ کے پنجاب کے عوام اس محرومی کے احساس میں مبتلا ہونے لگی تھی کہ ہم بھی کیسے لوگ ہیں جن کا کوئی گورنر بھی نہیں۔ اگرچہ ایک عدد نئے گورنر کی ضرورت ہر گز نہ تھی۔ چھوٹے میاں جی وزارت اعلیٰ کے ساتھ ساتھ گورنری کا بوجھ بھی اپنے فولادی کاندھوں پر اٹھا سکتے تھے مگر اسلامی جمہور شریفیہ کے پردھان منتری کاغذی دولت کے ساتھ ساتھ دردِدل کی دولت سے بھی مالا مال واقع ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم ہاؤس سے کر مری کے یخ بستہ موسم میں وہ قوم کے دکھ درد میں کڑھتے رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کی راتوں کی نیند اڑ چکی ہے۔ چہرے پر ویرانیوں کو بسیرا ہے۔ وزن کم ہو کر آدھا رہ گیا ہے ۔  قوم کے غم کی ہی وجہ سے وہ اکثر فائلوں پر ضروری توجہ نہیں دے پاتے اور کئی کام ادھورے رہ جاتے ہیں۔ بُرا ہو ان ناقدین کا، جو ہر وقت ہمارے معصوم وزیر اعظم پر پھبتیاں کستے رہتے ہیں۔

بہر حال، اسلامی جمہوریہ شریفیہ کے ہر دل عزیز راہنما، قوم کی ڈوبتی کشتی کے واحد سہارے کے طور پر محمد شاہ رنگیلا کی بجائے سلطان صلاح الدین ایوبی کے نقش قدم پر چلنے کا پر خطر اور کٹھن فیصلہ کرتے ہیں۔ رائے ونڈ میں اپنی غریب گاہ میں ایک اہم اجلاس طلب کرتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ شریفیہ کے اہم عہدے داروں کے علاوہ ملک کے طول و عرض سے خاندانی بھانڈ، ٹٹ پونجیے، مالشیے، خاکروب، میراثی، موت کے کنووں کے سامنے گانے والے، سرکس میں اپنے کرتب دکھانے والے بطور امیدوار اس بزم میں شامل ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں، ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے اصحاب کو بھی خصوصی دعوت دی گئی جو خوشامد، چاپلوسی، چرب زبانی اور لوٹ کھسوٹ کے فن میں یدِطولیٰ رکھتے تھے۔ اس بات کا خصوصی اہتمام کیا گیا کہ اس بزم میں صرف وہی اصحاب شامل ہوں جن کے روشن اذہان ہر قسم کی سیاسی سوجھ بوجھ کی آلائش سے صاف اور پاک ہوں۔ ان افراد کا داخلہ اس بزم میں ممنوع قرار دیا گیا جن کے سینے میں ضمیر نام کی کوئی شے مرتے دموں پر بھی پائی گئی۔ 


ہماری چڑیا بھی اس محفل کے ایک کونے میں دبکی اس تاریخ ساز اجلاس کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی ۔ رسمی علیک سلیک کے بعد انٹرویوز کا سلسلہ شروع ہوا، جو لمبا ہوتا چلا گیا ۔ انٹرویو کے دوران امیدواروں سے مختلف قسم کے سوال کیے گئے، امیدواروں کے جوابات کی روشنی میں ان کی شخصیت کا تجزیہ مختلف زاویوں سے کیا جاتا۔ ان تجزیوں میں یہ بات سامنے آتی، کہ انتہائی بے ضمیر انسانوں اور مردہ دلوں میں بھی اپنے ہم نفسوں کی بہتری اور بھلائی کے لیے کچھ کرنے کی تمنا کسی کونے کھدرے میں پائی جاتی ہے۔ چونکہ اسلامی جمہوریہ شریفیہ اور اس کے عوام دو مختلف چیزیں ہیں لہٰذا، اسلامی جمہوریہ شریفیہ کے وسیع تر مفاد کی خاطر یہ امیدوار مسترد کیے جاتے رہے۔ یہ اتنا مشکل انتخاب تھا کہ ایک ایسا خاندانی بھانڈ، جس کے پرکھوں نے اکبر اعظم کے دربار میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا، بھی ناکام ہو گیا۔ جمہوریہ شریفیہ کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر کی تعیناتی کا عمل لمبا ہونے لگا۔ امید نا امیدی میں بدلنے لگے۔ تبھی انٹرویو کے لیے قرعہ فال جناب عطاء شریف قاسمی کے حق میں نکلا۔ جناب قاسمی نے اپنی بابرکت اور بھاری تشریف امیدواری کی کرسی میں رکھی۔ اسلامی جمہوریہ شریفیہ کی مقتدر ترین ہستی کی جانب سے دھیمے لہجے میں ایک سوال کیا گیا۔ لہجہ اتنا دھیما تھا کہ صرف قاسمی صاحب کی سماعتیں ہیں سماعت کا شرف حاصل کر پائیں۔ جناب قاسمی نے اپنی آنکھیں بند کیں۔ چشمِ تصور میں پٹھانے خان کو دیکھا، اندھی عقیدت کو چھوتے ہوئے عشقیہ لہجے میں حضرت خواجہ ّغلام فرید کا یہ کلام پیش کیا 

میڈا عشق وی توں، میڈا یار وی توں
میڈا دین وی توں، ایمان وی توں

میڈا جسم وی توں، میڈا روح وی توں
میڈا قلب وی توں، جند جان وی توں

میڈا کعبہ، قبلہ، مسجد، منبر
مصحف تے قرآن وی توں

میڈے فرض، فریضے، حج، زکوٰتاں
صوم، صلوٰات، اذان وی توں

میڈی زُہد، عبادت، طاعت، تقوٰی
علم وی توں، عرفان وی توں

میڈا مرشد، ہادی، پیر طریقت
شیخ حقائق دان وی توں

میڈا حسن تے بھاگ، سہاگ وی توں
میڈا بخت تے نام نشان وی توں


حضرتِ قاسمی کی عقیدت اور عشق میں رندھی ہوئی آواز، اوپر سے عاشقین جمہوریہ شریفیہ کے درمیان محبوبِ اول کی بنفسِ نفیس موجودگی، ہماری چڑیا کا کہنا ہے کہ حاضرینِ محفل ہر ایک وجد سا طاری تھا۔ حکومت کے کچھ وزیر مجذوبانہ رقص کر رہے تھے تو کچھ دیوانہ وار۔ کچھ کی آنکھوں میں آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہ لے رہے تھے۔ سبھی چہرے عالم محویت میں اپنے محبوب اور جمہوریہ شریفیہ کے تاجدار کے منور چہرے کے طرف دیکھے ہی جا رہے تھے۔ ہر دل میں ایک ہی تمنا تھی کہ وقت تھم جائے۔ صدر مملکت اسلامی جمہوریہ شریفیہ، جن کی موجودگی اس سے قبل محسوس نہ کی گئی تھی، نے اپنی سامنے پڑی میز استعمال کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے طبلہ بجایا۔ محترم وزیر دفاع اٹھے اور انہوں نے منی بدنام ہوئی کی لے پر بھر پور ٹھمکا لگایا۔  محترم وزیر اعظم اور سبھی حاضرین محفل متفق تھے کہ اگر پڑوسی ملک سے جنگ کی نوبت آئی تو دشمن کو میدان جنگ میں بدنام کرنے لیے محترم وزیر کا ایک ٹھمکا ہی کافی ہو گا۔ اس پر جناب وزیر اعظم جمہوریہ شریفیہ نے ملک کی دفاعی تیاریوں پر بھرپور اطمینان کا اظہار کیا اور فرمایا کہ اب دشمن کو ہماری طرف بری آنکھ سے دیکھنے کی بھی جرات نہ ہو گی۔ اس کے بعد، جنابِ صدر نے بڑے میاں جی کی منظوری اور تھپکی کے بعد جنابِ قاسمی کو نیا گورنر مقرر کیا۔ اس موقع پر جنابِ صدر نے یہ بھی کہا کہ چونکہ آج کل کار حکومت فوج دیکھ رہی ہے لہٰذا، اگلے گورنر کی تعیناتی تک حکومت کو چھٹیاں دی جاتی ہیں۔ جنابِ صدر نے اس با برکت موقع پر یہ خوش خبری بھی سنائی کہ چھٹیوں کے دوران تمام حکومتی عہدیداروں کو تنخواہیں اور دیگر مراعات باقاعدگی سے ادا کی جائیں۔ اس کے بعد اجتماعی دعا کی گئی ۔ مولوی صاحب نے کہا کہ اللہ ہم پاکستانی عوام کو تیرے سپرد کرتے ہیں۔ اس پر تمام 
حکومتی عہدیداروں نے بلند آواز سے کہا، آمین۔

An Open Letter to Javed Chaudhry - جاوید چودھری کے نام کھلا خط

This Urdu letter is a response to Javed Chaudhry’s Urdu column published in Daily Express on 14 September 2014. In his column, Mr Chaudhry grumbled over the verbal abuse by PIT’s supporters and sympathizers only due to his unbiased and impartial analyses. In this Open Letter To Javed Chaudhry, the author of the letter tried to reply some of the questions put forward by Javed Chaudhry and see if he has really been impartial and unbiased over the recent years.


محترم جاوید چودھری صاحب

السلام علیکم و رحمتہ اللہ

آپ کا کالم ، عمران خان کے لیے، نظر سے گذرا۔ اس تحریر نے آپ نے عمران خان کے خوب لتے لیے۔ خان صاحب کے حلقہ ارادت میں شامل ہونے سے لے کر خان صاحب سے وابستہ توقعات کے ٹوٹنے تک کے سفر کو بہت تفصیل سے بیان کیا۔ آخر میں آپ نے قارئین کو گالیاں دینے کی دعوت دی۔ کسی کو اختلاف رائے کی بنیاد پر گالیاں دینا ایک غلط عمل ہے۔ آپ نے ایک غلط عمل کی حوصلہ افزائی اور سہولت فراہم کرنے کی خاطر دو عدد موبائل نمبرز بھی فراہم کر دئیے۔ جزاک اللہ۔ تاہم میرا مشاہدہ یہ ہے کہ میڈیا سے وابستہ لوگوں کے لیے گالیاں اور تعریفیں دونوں ہی فائدہ مند ہوتی ہیں اور ریٹنگ بڑھانے کا باعث بنتی ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ کا مطمح نظر ہر گز یہ نہیں ہو گا۔ 




سب سے پہلے تو یہ اعتراف کہ میں آپ کے کالموں پر باقاعدگی سے نظر ڈالنے کی کوشش کرتا ہوں۔ میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ آپ مبالغہ آرائی کے فن کے شہنشاہ ہیں ۔ آپ مبالغہ آرائی کو بھی مبالغہ آرائی کی آخری انتہا تک پہنچا دیتے ہیں۔ آپ  رائی کو پہاڑ نہیں بلکہ سلسلہ کوہ ہمالیہ بنا دیتے ہیں۔ تاہم یہ اعتراف بھی ہے کہ رائی کا وہ ذرہ جس پر آپ کوہ ہمالیہ کی بناد رکھتے ہیں اکثر اوقات باسیدہ اوقات میں ہوا کا تازہ جھونکا ثابت ہوتا ہے۔ اس میں سیکھنے کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے

اب بات کرتے ہیں عمران خان صاحب کے حلقہ ارادت میں آپ کی شمولیت کی۔ میں آپ کی اس بات پر یقین کرنا چاہتا ہوں۔ مگر کیا کیجیے کہ میں آپ کا ایک انٹرویو نہیں بھول سکتا۔ اس نشست میں وزیر اعلیٰ پنجاب آپ کے مہمان تھے۔ صحیح ترین الفاظ میں آپ میاں صاحب کے مہمان لگ رہے تھے۔ آپ وہ انٹرویو دوبارہ دیکھ سکتے ہیں۔ اگر غیر جانبداری آپ کی نظر میں ذرہ بھی اہمیت رکھتی ہے تو آپ یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ آپ نے وہ سوالات نہ کیے جو بطور صحافی آپ کا فرض منصبی تھا۔ آپ نے شہباز شریف کو کھلی چھٹی دی کہ وہ اپنی بے منطق گفتگو اور بے ربط سفید جھوٹ آپ کے پروگرام کے ذریعے عوام تک پہنچا سکیں۔ کچھ صاحبان رائے کا ماننا یہ بھی ہے کہ اس سے زیادہ فرینڈلی انٹرویو شائد ہی پاکستان میں ممکن ہو ۔ حالانکہ بقول آپ کے اس وقت تک آپ خان صاحب کے حلقہ ارادت میں شامل تھے۔ 


مجھے آپ کا وہ کالم بھی بھلائے نہیں بھولتا جس میں آپ نے اپنا زور تحریر یہ ثابت کرنے پر صرف کر دیا کہ اسحٰق ڈار ایک ایسے عاشقِ رسول ہیں جن کے لبوں پر ہر وقت درود و سلام کے پھول کھلتے ہیں۔ آپ نے قارئین کو یہ باور کرانے کی بھی کوشش کی کہ اب پاکستانی عوام کے حالات بدلنے ہی والے ہیں کیونکہ اب ہمیں ایسا وزیر خزانہ مل گیا ہے جس پر عوام کی حالت بدلنے کے لیے دن رات کام کرنے کا جنون سوار ہے ۔ آپ نے بھول کر بھی یہ بھی انکشاف کرنے کی غلطی نہیں کی کہ یہ وہی وزیر خزانہ ہے جو ماضی میں شریف خاندان کے لیے منی لانڈرنگ جیسے جرم میں ملوث رہا ۔ آپ نے عوام کو یہ نہیں بتایا کہ ہمارا یہ وزیر خزانہ صرف اور صرف ٹیکس بچانے کے لیے اپنی جمع پونجی اپنے بیٹے کو بطور قرض حسنہ دے دیتا ہے ۔ بطور صحافی آپ کا فرض تھا کہ آپ اس طرف توجہ دلاتے کہ اسحٰق ڈار ایک چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ ہیں ایک اکانومسٹ نہیں۔ اکاؤنٹنٹ کو اردو میں منشی کہا جا سکتا ہے جس کا کام حساب کتاب رکھنا ہوتا ہے۔ اگر آپ غیر جانبدار ہوتے تو یہ سوال اٹھاتے کہ ایک منشی معیشت کہ بہتری میں کس حد تک کردار ادا کر سکتا ہے۔ جبکہ آپ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ایک مولوی ایک اچھا سرجن بننے جا رہا ہے۔ اسی کالم میں آپ نے نواز شریف کو درد دل کی دولت سے مالا مال انسان قرار دیا۔ آپ نے ان کو شرافت، عاجزی اور انسان دوستی کا ماؤنٹ ایورسٹ بنا ڈالا۔ آپ نے ایک واقعہ لکھا کہ کس طرح میاں صاحب نے صرف غصہ نہ آنے کی وجہ سے گاڑی رکوائی اور باہر نکل کر گرو و غبار سے اٹی زمین پر نوافلِ شکرانہ ادا کیے ۔ یہ کالم ٢٠١٣ میں لکھا گیا۔ اس تحریر کا ایک ایک لفظ عشقِ نواز کی صدا دیتا ہے۔ ایک سچے مرید کے دو مرشد نہیں ہوتے ۔ اگر ٢٠١٣ میں آپ نواز شریف اور اسحٰق ڈار کے مرید تھے تو آپ کے زیر بحث کالم میں اگست ٢٠١٤ تک عمران خان کے حلقہ ارادت میں شامل رہنے کا دعویٰ بے بنیاد ہے ۔ جھوٹ ہے ۔ آپ کی تحریر کا کھلا تضاد ہے۔ 


عمران خان نے کئی غلطیاں کی ہوں گی۔ اس کی شخصیت میں کئی خامیاں ہو گی سچ یہ بھی ہے کہ غلطیاں نواز شریف نے بھی کی اور زرداری نے بھی۔۔کیا شہباز شریف اور احسن اقبال خامیوں سے پاک ہیں؟ مگر اس بات سے کون انکار کر سکتا ہے کہ عمران خان دیانت دار ہے ۔ پر خلوص ہے ۔ وہ لکشمی دیوی کا پجاری ہے نہ بیرون ملک جائیدادوں کے خبط میں مبتلا۔ چودھری صاحب بتائیے، اگر آپ کے مکان پر کوئی قبضہ کر لے، تو آپ کیا کریں گے؟ آپ جا کر قابض سے مذاکرات کریں گے؟ آپ اس بدمعاش سے بولیں گے کہ بھائی یہ قبضہ غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے؟ آپ کی جائیداد پر قابض شخص آپ سے جواب میں یہ کہے کہ بھائی میں نے آپ کے مکان پر قبضہ تو نہیں کیا۔ یہ زمین تو اللہ کی ہے۔ میں تو صرف اس زمین پر مقیم ہوں۔ میں آپ کی لفظ قبضہ کی تعریف سے اتفاق نہیں کرتا ۔ اور اگر آپ یہ کہیں کہ نہیں آپ نے میرے مکان پر قبضہ کیا ہے تو اہل محلہ آپ پر الزام لگا دیں کہ چودھری صاحب کی ہٹ دھرمی، ضد، اور انا کے باعث مسئلہ حل نہیں ہو رہا۔ اس الزام پر آپ کے محسوسات کیا ہوں گے؟ ایمانداری سے کہیے کہ اس صورت میں آپ کا موقف کیا وہی نہیں ہو گا جو آج عمران خان کا ہے؟  

آپ فرماتے ہیں کہ خان صاحب کے ساڑھے پانچ مطالبات تسلیم ہو چکے۔ لہٰذا اب عمران خان کو ضد چھوڑ دینی چاہیے۔ لیکن آزاد ذرائع ابلاغ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ساڑھے پانچ مطالبات تو بہت دور کی بات ، ایک مہینے کے مذاکرات کے دوران دھاندلی کی تعریف پر بھی اتفاق نہیں ہو پایا۔ میڈیا سے وابستہ لوگ یہ دعویٰ کرتے بھی نظر آتے ہیں کہ حکومت پہلے دن سے ہی مذاکرات کی کامیابی کے لیے سنجیدہ نہیں تھی۔ بلکہ حکومت چاہتی ہے کہ مظاہرین کو تھکا تھکا کر مارا جائے۔ مگر چودھری صاحب، معذرت کے ساتھ، تصویر کے اس رخ پر نظر ڈالنے سے تو آپ کے پر جلتے ہیں۔ چودھری صاحب بتائیے کہ کیا اس ملک میں ضد کا حق صرف شریف خاندان اور آپ کی ذات کو حاصل ہے؟ آپ وکالت تو شریف خاندان کی کرتے ہیں اور اس ضد سے بھی باز نہیں آتے کہ آپ کا حق پرست غیر جانبدار صحافی سمجھا جائے! کیا ضد میں عمران خان سے کم ہیں کیا؟


بغضِ عمران پر مبنی اس کالم میں آپ عمران پر فرد جرم عائد کرتے ہوئے الزام لگاتے ہیں کی خان صاحب نے غصے کو غیر شائستگی کا نیا پٹرول فراہم کر دیا۔ خان صاحب سے اختلاف رائے کا مطلب گالیاں ہیں۔ بجا فرمایا۔ مستند ہے آپ کا فرمایا ہوا۔ آپ چاہتے ہیں کہ آپ دن کو کہیں رات تو آپ کا قاری چاند ستارے دیکھنے لگے۔ آپ یہ کیسے بھول گئے کہ حالیہ سیاست میں غیر شائستگی متعارف کروانے کی سعادت عمران نے حاصل نہیں کی۔ شہباز شریف یہ مقدس فریضہ بہت پہلے انجام دے چکے۔ آپ کیسے بھول گئے شہباز شریف کے نعرے۔ وہ دن جب عالم دیوانگی میں ہر وقت چھوٹے میں یہی دھمال ڈالتے پھرتے تھے کہ  گو زرداری گو ۔ یہ چھوٹے میں ہی تھے جو یہ کہتے پھرتے تھے کہ زرداری کے گلے میں رسی ڈال کر مال روڈ پر گھسیٹوں گا۔ کیا کہتے ہیں چودھری صاحب، اس سے معاشرے میں شائستگی کا کلچر پروان چڑھا ہو گا۔ اس کو منافقت کے سوا اور کیا کہا جائے کہ شہباز شریف اگر ایک منتخب صدر کو علی بابا اور چالیس چور کہے تو اس سے معاشرے میں برداشت کو فروغ حاصل ہوتا ہے۔ اگر نواز شریف ججوں کی بحالی کے لیے لانگ مارچ کرے تو بہت اچھے۔ لیکن اگر تحریک انصاف اور عوامی تحریک اپنے مطالبات کی خاطر سڑکوں پر آ جائے تو جمہوریت کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے اور معاشرہ تباہی کے کنارے پر آ کھڑا ہوتا ہے۔ اگر کوئی آپ کے موقف پر ایمان لے آئے تو درست مگر کوئی آپ سے اختلاف کرتے ہوئے آپ کو شریف خاندان کا ترجمان قرار دے ڈالے تو وہ گالیاں بن جاتی ہیں۔ 


آپ نے عمران خان پر ملک کو لاقانونیت کی طرف لے جانے اور قانون کا رہا سہا بھرم ختم کرنے کا الزام بھی لگایا۔ لاقانونیت کی حکمرانی کا سوال آپ کو شہباز شریف سے اس وقت کرنا چاہیے تھا جب وہ آپ کے پروگرام میں رونق افروز تھے۔ مگر اس وقت تو آپ جھکی نگاہوں اور معصوم سوالات سے ہی پروگرام کی رونق بڑھاتے رہے۔ چودھری صاحب سچ تو یہ ہے کہ اس ملک میں قانون اور انصاف کے تابوت میں آخری کیل ١٧ جون کو ماڈل ٹاؤن لاہور میں دن کی روشنی میں ٹھونکا گیا۔ حکمرانوں کی ایما پر لاہور کی زمین کو معصوم انسانوں کے خون سے نہلا دیا گیا۔ مگر قانون ستو پی کر سو گیا اور انصاف نے لسی پی کر بے حسی کی چادر اوڑھ لی۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نوٹس لینے والی عدالتیں ایسے غائب ہو گئیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ انصاف تو دور کی بات، ایف آئی آر درج کروانے کے لیے مقتولین کے ورثا کو مہینوں دھکے کھانے پھرے لیکن آپ کو قانون کی موت نظر نہ آئی۔ جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ میں حکمرانوں کے ممکنہ کردار پر انگلی اٹھی تو مشرف دور میں گنجے کیے جانے والے رانا ثنااللہ فرماتے ہیں کہ رپورٹ لکھنے والے جج کے خلاف کاروائی کی جائے گی تو نظام انصاف کو لاحق خطرات آپ کو نظر میں نہیں آتے۔ رانا ثنا اللہ توہین عدالت کے مرتکب ہوئے یا نہیں یہ تو کوئی قانون دان ہی بتا سکتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سے ملک میں قانون کی حکمرانی قائم ہو گی؟ خدا لگتی کہی جائے تو سانحہ ماڈل ٹاؤن اور اس کے بعد جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے بعد شہباز شریف کے پاس اقتدار سے چمٹے رہنے کا ہر گز کوئی جواز نہیں۔ اگر اس ملک میں جمہوریت، قانون، انصاف اور اخلاق کا کوئی وجود ہے تو شہباز شریف کو فی الفور مستعفی ہو جانا چاہیے۔ یہ بات عمران خان اور طاہر القادری کہیں تو ان پر ضدی ہونے اور 
معاشرے کو انارکی کی طرف لے جانے کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ 

جب سانحہ ماڈل ٹاون ہوا، پنجاب کے حکمرانوں کے ایک اشارے پر پنجاب پولیس کے بہادر جوانوں نے معصوم عوام کے خون کی ندیاں بہا دیں، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں پر لاٹھیوں کی بارش کردی۔ پتھر سے پتھر دل بھی توبہ توبہ کر اٹھے۔ آپ نے اس سانحہ پر ایک کالم لکھا۔ اس کالم کا عنوان تھا، یہ گلو بٹ نہیں نفرت ہے۔ آپ کے اس کالم کے دو حصے تھے۔ پہلا حصہ شاتم رسول سلمان رشدی کے بارے میں تھا۔ آپ لکھتے ہیں کہ امریکہ سلمان رشدی کی حفاظت پر لاکھوں ڈالر خرچ کرتا ہے، اس کا گھر اور گاڑی بم پروف ہے، صرف اس لیےکہ امریکہ چاہتا ہے کہ عوام کے دل میں قانون کا خوف رہے۔ دوسرا حصہ ماڈل ٹاون کے بدنام زمانہ کردار گلو بٹ کے بارے میں تھا۔ آپ نے لکھا کہ "گلو بٹ نے جس انداز میں گاڑیاں توڑیں، یہ رویہ نارمل نہیں، یہ نفرت تھی، یہ گلو بٹ کی نظام، حکمرانوں، اشرافیہ اور گاڑیوں کے خلاف وہ نفرت تھی جو قطرہ قطرہ بن کر اس کے جسم میں جمع ہوتی رہی۔ جب اسے یہ نفرت اگلنے کا موقع ملا تو اس نے ڈنڈا اٹھایا اور گاڑیاں توڑ دیں۔" آپ مزید فرماتے ہیں کہ "آپ گلو بٹ کی فوٹیج کوبار بار دیکھیں، آپ کو اس ملک کے ہر غریب شخص کے اندر ایک گلو بٹ کھولتا ہوا ملے گا، یہ گلو بٹ بھی لاہور کے گلو بٹ کی طرح اس ملک میں تعیش کی ہر چیز کو نابود کر دینا چاہتے ہیں، بس یہ اپنے اپنے حصے کے 17 جون کا انتظار کر رہے ہیں۔ یہ جس دن اپنے حصے کے 17 جون تک پہنچیں گے، یہ بھی گلو بٹ ثابت ہوں گے۔''

آپ ضد کرتے ہیں تو مان لیتے ہیں کہ آپ کا قلم سچ لکھتا ہے، زبان صرف سچ کہتی ہے، آپ جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے سے باز نہیں آتے۔ کہنا تو صرف یہ ہے کہ حضور آپ کی منطق بجا، آپ کا کہنا سر آنکھوں پر، مانا کہ گلو بٹ شہبازشریف کا پالتو غنڈہ نہیں تھا، یہ بھی مانا کہ گلو بٹ پولیس ٹاوٹ اور بدمعاش نہیں تھا، اسے شریفوں کی تھپکی نہیں تھی۔ مگر جناب، اجازت ہو تو ایک سوال کر لوں؟ آپ نے گلو بٹ پر تو پورا کالم لکھ مارا، لیکن اس کالم کے کسی کونے کھدرے میں بھی آپ ماڈل ٹاون میں ہونے والے قتل عام کی مذمت تک بھی نہ کر سکے۔ مانا مجبوریاں ہوتی ہیں، کچھ باتیں براہ راست نہیں کی جا سکتیں۔ مگر آپ تو آج کے سقراط ہیں، الفاظ اور تخیل کے بادشاہ ہیں، دبے لفظوں میں ہی مذمت کر ڈالتے، کسی آئندہ کالم میں ہی لکھ ڈالتے کہ ناحق خون بہایا گیا، اس قتل عام کی آزادانہ تفتیش کی جائے۔ مگر نہیں۔ آپ کو نہتی عورتوں، بوڑھوں اور جوانوں کا بہتا لہو دکھائی دیا نہ زخمیوں کی چیخیں سنائی دیں۔ آپ اپنے دفتر میں بیٹھ کر صرف یہی قوالی کرتے رہ گئے، میں حق لکھتا ہوں، میں سچ کہتا ہوں۔ 

آج کا بھیانک ترین سچ تو یہ ہے کہ آج پاکستان، اسلامی جمہوریہ شریفیہ بن چکا ہے۔ وہ تمام لوگ جن کے مفادات مملکت شریفیہ سے وابستہ ہیں ایک طرف ہیں۔ دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو پاکستان کو اس قبضہ گروپ سے آزاد کروانا چاہتے ہیں۔ جہاں تک عوام کی اکثریت کا تعلق ہے تو اس بات پر اکثریت کا یقین اور اتفاق ہے کہ عمران خان مخلص، سچا اور دیانت دار راہنما ہے۔ اسلام آباد دھرنے کے دوران ڈیرہ اسماعیل خان، جہاں مولانا ڈیزل کے نام سے معروف مولانا فضل الرحمٰن کا ووٹ بھی رجسٹرڈ ہے، کے ایک ضمنی انتخاب میں تحریک انصاف کے امیدوار کی کامیابی اس کا روشن ثبوت ہے۔ گذشتہ ڈیڑھ سال میں عمران خان کے سیاسی کردار کا تجزیہ کیا جائے تو اس کو ضدی اور ہٹ دھرم کہنا اس کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ آج نواز شریف جو بھی ہے، بہرحال آرمی کے گملے میں اگا ہوا ایک پودا ہے۔ جبکہ دوسری طرف عمران اپنی جہد مسلسل اور انتھک محنت سے موجودہ مقام پر پہنچنے والا سیاستدان ہے۔ 


آخر پر صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ اپنی تحریروں کی وساطت سے آپ نے خود کو اسلامی جمہوریہ شریفیہ کا وفادار ترجمان ثابت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ یہ بات کسی بھی شک سے بالاتر ہے کہ آپ اچھا لکھتے ہیں۔ مگر یہ بھی اپنی جگہ سچ ہے کہ آپ محترم عطاالحق قاسمی اور محترم عرفان صدیقی کی امامت میں اپنی صحافتی نماز ادا کرتے ہیں۔ میں آپ کا کالموں کا قاری تھا اور علم و دانش کے موتیوں کی تلاش میں آپ کی تحریروں کا قاری رہوں گا۔ تاہم جہاں تک سیاسی موضوعات کا تعلق ہے تو دیگر قارئین کی طرح یہ بات میرے علمی ایمان کا حصہ بن چکی ہے کہ آپ کا قلم رائےونڈ محل کے چشموں سے پھوٹنےوالے مقدس پانیوں میں غسل کے بعد لب کشائی کرتا ہے۔ میرے نزدیک آپ شریف خاندان کے ترجمان ہیں۔ آپ میرے لیے محترم ہیں اور رہیں گے۔ گذارش صرف اتنی ہے کہ غیر جانبدار لکھاری ہونے کی ضد اب چھوڑ دیجیے!

Calling Cyanide Honey.

We start with a simple question. Cyanide is known to be one of the deadliest poisons, where a small amount is enough to change a living organism into a dead body. We assume that someone deliberately puts a label on the cyanide’s bottle, which reads as honey. The first question is that if we call cyanide honey, so does this name change affect the chemical composition and its lethal effects?

The answer to this question will be unanimous and undisputed. Even Imran Khan and Asif Zardari would agree that whether we call it honey or sugar, cyanide will continue to be cyanide and will kill anyone who dares to consume it. Unlike our democratic leaders and political zombies, it offers the same treatment to the rich and poor, industrialists and workers. Just like calling Nawaz Sharif Asif Zardari will neither change him as a person nor will it affect his hard learnt lessons in the sacred environment of Saudi Arabia, calling the poison a sweet name does not change its chemical composition and effects. It will play exactly the same role nature has assigned to it.

Now we come to the deliberate act of labelling the cyanide bottle as honey; either the doer of this act is psychologically sick, and in this case psychologists may add up a long list of technical terms. Or, in the other case, if he was well aware of the lethal properties of the compound, the doer must have some wicked designs, behind such a brutal act, which may vary from a poor housewife to our richest leaders, who represent the masses of poor and hungry.

Labelling the bottle, in simplest terms, is an act of communication, imparting of information. With the divine duty of guardianship, our democratic leaders communicate non-stop. What do we call them if they claim the existence of A, while actually it does not exist? What if they tell us that the substance in the bottle is honey, while actually it is cyanide?

Our respected and learned senators recently expressed their concerns about the democratic system and announced that conspiracies are being hatched against democracy. To understand the exact nature of democracy’s vulnerability, first of all, one needs to know the exact coordinates and physical features of our beloved democracy. Putting aside the state of democracy, I will appreciate if someone can confirm its existence in the land of the pure.

Long ago, as a student in junior grades, it was quite easy to learn its world famous definition: government of the people, by the people and for the people. This may be the case in other democracies but not in Pakistan. As an adult and having observed the state of affairs, the Pakistani version of democracy seems to be the government of the family, by the family and for the family. Before the government was the Zardari family and now it is the Sharifs’ turn.

Analyse the affairs of the state; Pakistan today will look like the ‘Islami Jamhuria Sharifia’. Nawaz Sharif serves his premiership for the third time, though he still needs to believe that he runs the show. Pray for his long life and he will never find anyone else to whom he may entrust the future of the nation. We still do not have a proper foreign minister because there is no family member available to fill the post. The people of Punjab have the honour to see Shahbaz Sharif as a chief minister, for a third time as well, and listen to his decade-old rhetoric day and night. Even if health does not allow, he is determined to continue issuing random and on the spot orders only to forget the previous ones. For the rest of Pakistan, since the supply of family members is limited, it could be left on its own. It is such a democracy for which the dictionary is of no help to understand the meanings of autocracy.

Four mainstream political parties run around one personality or family. The ruling party, the PML-N prides itself as the housemaid of Raiwind palace. The PPP, Bhuttos’ legacy, now resides in Zardari’s harem. The PTI is nothing but the shadow of cricket legend Imran Khan. And the Pakistani passport of Altaf Hussain is the top priority of the MQM. With such firm belief in the one man show, one wonders why we do not move towards the presidential system of government.

The journey of a democratic government starts from fair and free elections. The Pakistan Election Commission, in its nature and composition, can do anything except that. The funny thing about the general elections 2013 is that every political party complains of rigging. On May 11, Imran Khan lashed out at the government for its alleged role in rigging the 2013 parliamentary elections. He demanded the formation of a new and fully independent election Commission and vote verification in four constituencies. As believed by some, even if democracy is the name of impartial elections, what if the votes of citizens are hijacked? After all, no one can deny that political parties have developed hijacking people's opinion into a black art.

However, a democratic form of government is far more than this. Democracies prosper on some well understood and practiced values, attitudes, practices and principles. Adult citizens of a democratic government exercise power and civic responsibility directly or indirectly. Citizens are encouraged to shape their own future by the local government system. However, what an irony that the last time the elections for local government were held under the auspices of a military dictator. Consecutive democratic governments only found excuses to postpone having iron control on the usage of development funds. Thus, it does not matter if the citizens of Rawalpindi hate the so-called ‘jangla bus’; they have to suffer it as the Punjab CM needs a political show to prove him as a good administrator. It is nice to talk about the benefits of democracy on television shows and in the drawing rooms of Islamabad, Lahore and Karachi. Democracy is the government of a majority but in our country it has become the constant and putrid tyranny of minority.

We may call cyanide honey but we cannot ignore the pungent fact that the government and state have become a courtesan to one family. We all know the political credentials and statesmanship of our respected incumbent president. All key ministries are filled not by the virtue of merit, rather on personal relation and loyalty basis. The democratic system of government is best as it allows the collective wisdom of society to come into action for the common good. But, what we see is that family decisions trickle down to the masses. Lack of vision and randomness is the law of the day. In a democracy, one is free to call a terrorist a martyr and civil dictatorship democracy. But, we must not forget that by changing labels, cyanide does not become honey.


Published at Daily Times on May 24, 2014

Why Youtube Is Actually Banned in Pakistan? The Real Reasons

There are two sides to every picture: the sentence is simple, declarative and apparently does not seem to have hidden meanings. The problem is that the devil is in the details. An examination of the affairs of the Islamic Republic of Pakistan leads us to two possibilities: either we have started believing that the practice of using religion for personal, financial and political gains is in fact the most sacred religious duty conferred upon us, or we believe that we are the only Islamic state in the world. People living in other Islamic states are just pretending. Though the government of Turkey, our brother Islamic country, seems to follow in our footsteps, it is miles away from being a ‘pure’ Islamic nation, like us. 

Since 2012, the government of a nuclear Islamic nation is afraid of a website. Official reasons in Pakistan, we all know, are never the actual reasons. Our previous government told the nation that Youtube hosts blasphemous videos and proudly announced that the site is restricted in our pure country. Indeed, the government thought it was not the video rather Youtube itself that hurt the sacred feelings of pure Muslims. So it kicked the hornet’s nest and the PPP government became certain of its place in the VIP quarters of paradise. Once in opposition, however, it found another way to serve the nation as a humble student of reality. Shazia Marri, PPP parliamentarian, submitted a resolution to lift the ban on Youtube immediately saying that since the people were using the website through proxies there is no point in a ban. Here we see that her demand to remove the ban on Youtube was not based on principle, rather on the absurdity of the ban itself. Proxy websites are not an invention of today and information technology is developing at a faster rate than that of our politicians’ capacity to process the ongoing changes in internet life.

Had the PPP government realised this fact, it would not have banned the video sharing website but would have tried to find another solution to block access to the blasphemous video. Even if a ban was necessary, it should have been temporary, to cool down flared sentiments. The current government indeed could find other solutions to block access to the allegedly ‘blasphemous’ movie, but since taking power it has been operating on punishment mode. To make people believe that the government exists, something needed to be done, so it decided to continue the ban and establish its writ. The Taliban might issue a certificate saying that the PML-N leadership shall get the same VIP treatment in paradise as the PPP. Maybe the Sharif-led government thought that lifting the ban would make religious extremists furious and bring them out on the streets. They may have forgotten that once our pure Muslims brothers are on the roads and streets, they consider it their religious duty to loot shops. Any property that cannot be looted, they set on fire. It should have refused to be blackmailed and talked directly to their mysterious masters.

Banning Youtube in the name of Islam is no different from the practices of the Taliban, who mask their criminal activities with sharia. The ban on Youtube is, in fact, only to deprive people of their constitutional right to access information and express their opinion freely and independently. Mr Sharif has a proven tendency towards civil dictatorship and wishes to keep media and state institutions under his thumb. In his last tenure he unsuccessfully tried to crush a media group and the Supreme Court (SC) was attacked by his party’s hoodlums. After passing the so-called Protection of Pakistan bill in the National Assembly, he once again proves that everything changes except the nature of man. To keep the media on his side, he continues to reward journalists with offices and ambassadorships. 

YouTube, on the other hand, is difficult to control but easy to block. Even if we believe just for a moment that the site is restricted due to a specific blasphemous video, if it was not in the interest of the government to chain Youtube, the Pakistan Telecommunications Authority (PTA) could block the video links. Now, assume again that the PTA technicians were not able to block the links and to completely chain the site was the only option. Even in this case, the government should have lifted the ban when Google removed the video under the orders of a US court. Or, at least when Shazia Marri submitted the resolution to lift the ban, the matter should not have been delayed. So we are left with nothing else to believe except that for some unknown reason our democratic governments feel threatened by the exercise of free expression in the country, as it is by the establishment of local government institutions. 

The local government system plays a vital role in strengthening democratic norms among people. It allows people to set their agenda and decide how to distribute economic resources. It empowers the masses. However, it also means that in the presence of local government institutions, politicians in Lahore and Islamabad will not receive development funds and new leadership will emerge from these institutions. Hence there are unlimited hurdles in the way of local government. 

The internet has given people a new level of freedom and a higher degree of access to information. YouTube is not just a video sharing website, it is a platform. In addition to entertainment, it also offers a great deal of knowledge. If you wish to enhance your computer knowledge, it is there to help. If you wish to listen to Islamic scholars, you can do so. It is not just a website but a multimedia library. It has a great number of videos about computer programming, software development, current affairs, technology and other topics. Therefore, the ban is as illogical as Ishaq Dar’s statement that the mysterious arrival of $ 1.5 billion in the national treasury was a gift with no strings attached. 

Realistically speaking, it is nonsense to ban any website. There are proxy websites that are specially developed for people living in countries where the internet is censored. Smartphones are full of free applications that help unblock sites. Some are specially programmed for YouTube. Our government can learn from the example of Turkey where the government blocked Twitter and by the evening of the same day people found ways to continue tweeting. If a government cannot implement a decision, there is no point issuing the orders and becoming a laughing stock. However, even if our politicians and religious scholars are really concerned about the presence of blasphemous material in cyberspace, banning the sites and chaining the internet is illogical. Instead, with logic and argument, our scholars should talk and convince the global community, representatives of our government should raise the issue at the international forums like the United Nations and work with the world to discourage and control blasphemous material. However, since that requires lots of hard work and does not offer material gain neither our government nor our scholars will do anything in this regard. Let us hope that soon the day will come when the internet will truly be free and YouTube unchained.


( This column is published in Daily Times on April 13, 2014 )