Showing posts with label shehbaz-sharif. Show all posts
Showing posts with label shehbaz-sharif. Show all posts

Transparency International Pakistan's Head Work for PML-N

The government of PML-N always claim to be a corruption free government. Chief Minister of Punjab, Mian Shehbaz Sharif, continuously tells the media and Punjabi people that Punjab government is corruption free and there is only one way leading towards the development; metro bus.

So here is the formula PML-N uses to improve the ranking regarding corruption control. It hires the country head of Transparency International Pakistan, to work for the Prime Minister. And, in return it gets what it wishes; a certificate that Pakistan has become a corruption free nation. 


Have a look at the video. Amir Mateen and Rauf Klasra break the story.


In addition, both of the senior journalists also explain how the leadership of PML-N had been conspiracies against the democratic governement of Pakistan Peoples Party of Paksitan.






Please feel free to share your thoughts about the so called good governance of PML-N, which some people start calling as Islami Jamhuria Sharifia

اسلامی جمہوریہ شریفیہ میں گورنر کی تعیناتی کی کہانی




اسلامی جمہوریہ شریفیہ کے غیور شہریوں کے مبارک، جمہوریہ شریفیہ کے سب سے بڑے صوبے کے با غیرت اور با شعور عوام کو سلامت۔ پاکستان کے ہر دل عزیز راہنما، قائد اعظم ثانی، نیلسن منڈیلا ثانی، صلاح الدین ایوبی ثانی، فخر ایشیا، سرمایہ کارِسعودیہ و برطانیہ، اعلیٰ حضرت بڑے میاں نے طویل غور و فکر اور سوچ بچار کے بعد پنجابی عوام کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ایک عدد گورنر کی تعیناتی کا تاریخ ساز فیصلہ کر لیا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ اس کارِ عظیم کے صلے میں تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ عوام کو یہ بھی یقین بھی ہونا چاہیے کہ نئے گورنر کی تعیناتی کے بعد پنجاب کے ہر شہر میں دودھ اور شہد کی ایک ایک نہر پھوٹے گی۔ ہر گلی میں امن کا طوطی بولا کرے گا۔ ہر چوک پر شانتی بین بجایا کرے گی اور نو من تیل ساتھ لیے رادھا ناچا کرے گی۔ جو ناہنجار اس پر شک کرے، ہمارے علمائے کرام کو اسے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہونی چاہیے۔ 

تفصیلات کے مطابق سابق گورنر پنجاب گورنر کی حقیقی ذمہ داریوں سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے کفران نعمت کے بار بار مرتکب ہو رہے تھے۔ جب ان کو اپنے اس گناہ عظیم کا احساس ہوا تو وہ اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو گئے اور آج کل کفارے کے طور پر لندن کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ یوں ان کی رخصتی کے بعد پنجاب کے گورنر کی کرسی خالی پڑی تھی۔ گورنر کے دفتر میں بھی الو بولنا شروع ہو چکے تھے۔ گورنر ہاؤس کی غلام گردشوں میں ویرانی ناچ رہی تھی۔ دنیا سوال کر رہی تھی کہ جو حکومت ایک عدد گورنر بھی تعینات نہیں کر سکتی، وہ دہشت گردوں کا مقابلہ خاک کرے گی۔ سب سے بڑھ کے پنجاب کے عوام اس محرومی کے احساس میں مبتلا ہونے لگی تھی کہ ہم بھی کیسے لوگ ہیں جن کا کوئی گورنر بھی نہیں۔ اگرچہ ایک عدد نئے گورنر کی ضرورت ہر گز نہ تھی۔ چھوٹے میاں جی وزارت اعلیٰ کے ساتھ ساتھ گورنری کا بوجھ بھی اپنے فولادی کاندھوں پر اٹھا سکتے تھے مگر اسلامی جمہور شریفیہ کے پردھان منتری کاغذی دولت کے ساتھ ساتھ دردِدل کی دولت سے بھی مالا مال واقع ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم ہاؤس سے کر مری کے یخ بستہ موسم میں وہ قوم کے دکھ درد میں کڑھتے رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کی راتوں کی نیند اڑ چکی ہے۔ چہرے پر ویرانیوں کو بسیرا ہے۔ وزن کم ہو کر آدھا رہ گیا ہے ۔  قوم کے غم کی ہی وجہ سے وہ اکثر فائلوں پر ضروری توجہ نہیں دے پاتے اور کئی کام ادھورے رہ جاتے ہیں۔ بُرا ہو ان ناقدین کا، جو ہر وقت ہمارے معصوم وزیر اعظم پر پھبتیاں کستے رہتے ہیں۔

بہر حال، اسلامی جمہوریہ شریفیہ کے ہر دل عزیز راہنما، قوم کی ڈوبتی کشتی کے واحد سہارے کے طور پر محمد شاہ رنگیلا کی بجائے سلطان صلاح الدین ایوبی کے نقش قدم پر چلنے کا پر خطر اور کٹھن فیصلہ کرتے ہیں۔ رائے ونڈ میں اپنی غریب گاہ میں ایک اہم اجلاس طلب کرتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ شریفیہ کے اہم عہدے داروں کے علاوہ ملک کے طول و عرض سے خاندانی بھانڈ، ٹٹ پونجیے، مالشیے، خاکروب، میراثی، موت کے کنووں کے سامنے گانے والے، سرکس میں اپنے کرتب دکھانے والے بطور امیدوار اس بزم میں شامل ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں، ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے اصحاب کو بھی خصوصی دعوت دی گئی جو خوشامد، چاپلوسی، چرب زبانی اور لوٹ کھسوٹ کے فن میں یدِطولیٰ رکھتے تھے۔ اس بات کا خصوصی اہتمام کیا گیا کہ اس بزم میں صرف وہی اصحاب شامل ہوں جن کے روشن اذہان ہر قسم کی سیاسی سوجھ بوجھ کی آلائش سے صاف اور پاک ہوں۔ ان افراد کا داخلہ اس بزم میں ممنوع قرار دیا گیا جن کے سینے میں ضمیر نام کی کوئی شے مرتے دموں پر بھی پائی گئی۔ 


ہماری چڑیا بھی اس محفل کے ایک کونے میں دبکی اس تاریخ ساز اجلاس کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی ۔ رسمی علیک سلیک کے بعد انٹرویوز کا سلسلہ شروع ہوا، جو لمبا ہوتا چلا گیا ۔ انٹرویو کے دوران امیدواروں سے مختلف قسم کے سوال کیے گئے، امیدواروں کے جوابات کی روشنی میں ان کی شخصیت کا تجزیہ مختلف زاویوں سے کیا جاتا۔ ان تجزیوں میں یہ بات سامنے آتی، کہ انتہائی بے ضمیر انسانوں اور مردہ دلوں میں بھی اپنے ہم نفسوں کی بہتری اور بھلائی کے لیے کچھ کرنے کی تمنا کسی کونے کھدرے میں پائی جاتی ہے۔ چونکہ اسلامی جمہوریہ شریفیہ اور اس کے عوام دو مختلف چیزیں ہیں لہٰذا، اسلامی جمہوریہ شریفیہ کے وسیع تر مفاد کی خاطر یہ امیدوار مسترد کیے جاتے رہے۔ یہ اتنا مشکل انتخاب تھا کہ ایک ایسا خاندانی بھانڈ، جس کے پرکھوں نے اکبر اعظم کے دربار میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا، بھی ناکام ہو گیا۔ جمہوریہ شریفیہ کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر کی تعیناتی کا عمل لمبا ہونے لگا۔ امید نا امیدی میں بدلنے لگے۔ تبھی انٹرویو کے لیے قرعہ فال جناب عطاء شریف قاسمی کے حق میں نکلا۔ جناب قاسمی نے اپنی بابرکت اور بھاری تشریف امیدواری کی کرسی میں رکھی۔ اسلامی جمہوریہ شریفیہ کی مقتدر ترین ہستی کی جانب سے دھیمے لہجے میں ایک سوال کیا گیا۔ لہجہ اتنا دھیما تھا کہ صرف قاسمی صاحب کی سماعتیں ہیں سماعت کا شرف حاصل کر پائیں۔ جناب قاسمی نے اپنی آنکھیں بند کیں۔ چشمِ تصور میں پٹھانے خان کو دیکھا، اندھی عقیدت کو چھوتے ہوئے عشقیہ لہجے میں حضرت خواجہ ّغلام فرید کا یہ کلام پیش کیا 

میڈا عشق وی توں، میڈا یار وی توں
میڈا دین وی توں، ایمان وی توں

میڈا جسم وی توں، میڈا روح وی توں
میڈا قلب وی توں، جند جان وی توں

میڈا کعبہ، قبلہ، مسجد، منبر
مصحف تے قرآن وی توں

میڈے فرض، فریضے، حج، زکوٰتاں
صوم، صلوٰات، اذان وی توں

میڈی زُہد، عبادت، طاعت، تقوٰی
علم وی توں، عرفان وی توں

میڈا مرشد، ہادی، پیر طریقت
شیخ حقائق دان وی توں

میڈا حسن تے بھاگ، سہاگ وی توں
میڈا بخت تے نام نشان وی توں


حضرتِ قاسمی کی عقیدت اور عشق میں رندھی ہوئی آواز، اوپر سے عاشقین جمہوریہ شریفیہ کے درمیان محبوبِ اول کی بنفسِ نفیس موجودگی، ہماری چڑیا کا کہنا ہے کہ حاضرینِ محفل ہر ایک وجد سا طاری تھا۔ حکومت کے کچھ وزیر مجذوبانہ رقص کر رہے تھے تو کچھ دیوانہ وار۔ کچھ کی آنکھوں میں آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہ لے رہے تھے۔ سبھی چہرے عالم محویت میں اپنے محبوب اور جمہوریہ شریفیہ کے تاجدار کے منور چہرے کے طرف دیکھے ہی جا رہے تھے۔ ہر دل میں ایک ہی تمنا تھی کہ وقت تھم جائے۔ صدر مملکت اسلامی جمہوریہ شریفیہ، جن کی موجودگی اس سے قبل محسوس نہ کی گئی تھی، نے اپنی سامنے پڑی میز استعمال کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے طبلہ بجایا۔ محترم وزیر دفاع اٹھے اور انہوں نے منی بدنام ہوئی کی لے پر بھر پور ٹھمکا لگایا۔  محترم وزیر اعظم اور سبھی حاضرین محفل متفق تھے کہ اگر پڑوسی ملک سے جنگ کی نوبت آئی تو دشمن کو میدان جنگ میں بدنام کرنے لیے محترم وزیر کا ایک ٹھمکا ہی کافی ہو گا۔ اس پر جناب وزیر اعظم جمہوریہ شریفیہ نے ملک کی دفاعی تیاریوں پر بھرپور اطمینان کا اظہار کیا اور فرمایا کہ اب دشمن کو ہماری طرف بری آنکھ سے دیکھنے کی بھی جرات نہ ہو گی۔ اس کے بعد، جنابِ صدر نے بڑے میاں جی کی منظوری اور تھپکی کے بعد جنابِ قاسمی کو نیا گورنر مقرر کیا۔ اس موقع پر جنابِ صدر نے یہ بھی کہا کہ چونکہ آج کل کار حکومت فوج دیکھ رہی ہے لہٰذا، اگلے گورنر کی تعیناتی تک حکومت کو چھٹیاں دی جاتی ہیں۔ جنابِ صدر نے اس با برکت موقع پر یہ خوش خبری بھی سنائی کہ چھٹیوں کے دوران تمام حکومتی عہدیداروں کو تنخواہیں اور دیگر مراعات باقاعدگی سے ادا کی جائیں۔ اس کے بعد اجتماعی دعا کی گئی ۔ مولوی صاحب نے کہا کہ اللہ ہم پاکستانی عوام کو تیرے سپرد کرتے ہیں۔ اس پر تمام 
حکومتی عہدیداروں نے بلند آواز سے کہا، آمین۔

The Death of Dialogue in Pakistan

( This article, published at Daily Times Pakistan on April 6, 2014, examines the state of freedom of expression and speech in Pakistan. )

The Death of Dialogue in Pakistan
Written by Qasir M. Chaudhry


Freedom of expression is as central to a democratic society as the Sharif family is to the PML-N. It is the essence of any democratic system and thus enshrined in the Constitution of Pakistan. Practically, it seems to be the last thing our governments and leaders care about. This is the only item of the agenda where major political parties find themselves on the same page; the less the people have the opportunity to express their thoughts freely, the better.


But, the problem with the democratic system of the government is that it needs certain ingredients to prosper. It is the dialogue among horizontal and vertical layers of the society which brings different groups and classes in harmony to achieve common objectives. An effective dialogue can not occur if the participants do not have a chance to share views without any fear.


For an effective dialogue among various layers of the society, freedom of speech and expression is a primary requirement, among others. If we take into account continuous and repetitive attacks on media personalities and opinion makers, it is no secret that speaking the truth and expressing an opinion is becoming more and more difficult. During the PPP government, under the visionary leadership of Mr. Zardari, the fundamental human right of expression and speech was badly exposed to the Talibanized justice.


During the tenure of the last government, standards of cowardice reached new and record heights. Unlike the current government , it was very focused and clear headed. It had one point agenda, to complete its tenure for five years. The rest, country included, could go to hell. And it did.
Salman Taseer, former Governor of Punjab, had a personality quite opposite to most of his fellow politicians. He was bold, outspoken, visionary and brave. He had his own opinion and was never shy to share it. Like the majority of educated Pakistanis his understanding of Zia’s introduced laws, under Islamic labels, was different from those of extremist outfits. But, unlike most of the Pakistani intelligentsia, he said it loud and clear. In addition he went out of the way to support a Christian lady, who was charged with blasphemy, but in fact seemed innocent to him. When his own bodyguard showered bullets on him and took his life, the PPP leadership was completely lost. His killing in January 2011 was followed by the murder of Shehbaz Masih, Minister for Minority Affairs. Both these people could have been heroes for the party which would have steered the course of events in the right direction, but the party leadership threw these high profile sacrifices in the dust bin, completely surrendered before extremists and became focused on its single point agenda. Thus, at the end of the five year term, freedom of expression and speech was already in a critical stage and on a ventilator.


In the general election of 2013 the soul of the PPP took the body of the PML-N, which emerged as victorious. The first thing the Nawaz led government did was to renounce all promises made during the election campaign. Then, it shook hands with enemies of any sort of freedom and removed freedom of speech from the ventilator. The patient succumbed to death immediately. The authorities might have recorded the time of death, but it was not communicated to the general public which still believes it to be alive. This corpse now lies in some unknown morgue in Lahore. In the darkness of an unmarked night the coffin of freedom of speech will be interred deep in the soil. The nation is proud to be blessed with a free and awake media, but still no one knows who gave 1.5 billion dollars to Pakistan and why. Thus, in all likelihood, the nation will never know when the death of freedom of speech occurred, the time it was buried and where.


The incumbent family dictatorship, which insists on being considered a legitimate democratic government, came into power facing major challenges such as terrorism, religious extremism, power shortage, rising inflation and unemployment, all requiring immediate measures. To curb terrorism and improve the law and order situation in Karachi the government came up with its best policy of action, do nothing at all. Then, it started operations in Karachi. To this day, both the operations and killing of innocents is going hand in hand. To tackle extremism and the Talibans, it came up with another excellent policy; beg terrorists for talks. Now both sides are playing at negotiations to arrive at already obvious results. If the government does not want to live with such paradoxes, then the question it is facing is quite simple. Can we allow any person or group to use force to impose their so called Islam on a population of 180 million?


However, like its predecessors, either our political leadership lacks the guts to address ruthless challenges or it is pondering on how to benefit from a Talibanized state. Our religious leadership, on the other hand, is doing even worse. The nation is facing a direct threat to its existence of integrity, while our scholars of the Islamic Ideological Council are telling husbands that they do not need to seek permission from the first wife to re-marry. In addition, IIC also says that Islam does not put an age limit for the marriage of a girl. And, in the name of Islam, we are being forced to accept such interpretations as they are. Any question or difference of opinion can put us on the wrong side.


If our leadership is in a confused state then the Taliban and their sympathizers, quite clear about their objectives, are constantly moving forward to materialize the differences between civil and military relationships and to divide the nation further. Those scholars who differ with the Taliban’s interpretations of Islam and whose opinion mattered have either left the country or been killed. Those who still live in Pakistan are under threat, like writers, media and politicians. At this moment only those who express the same values and ideas as the Talibans remain safe.

At the start of this year, in January, the famous columnist and playwright Asghar Nadeem Syed was attacked. He received two wounds, but survived. Some days ago, unknowns fired on the car of a famous TV anchorman and senior analyst, Raza Rumi. His driver succumbed to injuries and his bodyguard, although injured, survived the attack. Very "active after incident" chief minister Punjab Shehbaz Sharif asked for the report of the event, but it is an open secret that the report will be lost under an unattended pile of waiting reports, and the murderers will never be caught. However, the message for other writers is loud and clear; if they revisit their views they could be the next target.


To ensure the free expression of opinion is a sacred duty of every democratic government. While interring the coffin of dialogue and freedom of speech deep in the ground our rulers today must not forget that sooner or later the fire will reach their bodies too. The government of the PPP refused to learn this. If they had then today the son of Yousuf Raza Gilani, former PM of Pakistan, would not be under arrest by extremists, and Bilawal Bhutto, chairperson of PPP, would not have had to cancel his visit to Lahore. Benazir Bhutto used to say that democracy is the best revenge. Our current rulers have the chance to learn from other's mistakes and respect the democratic norms. If they refuse, democracy will take its revenge.