دشمن کے لیےگیدڑ ، عوام کے لیے شیر
شیر نے ایک بار پھر تین انسانوں کا لہو پی لیا۔ تین گھر اجڑ گئے۔ تین آنگنوں میں صف ماتم بچھ گئی۔ شیر کی پیاس مگر جوان ہے۔ اندھیر نگری میں چوپٹ راج ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ شیر ابھی کتنے انسانوں کا خون پیے گا۔
اس وقت ہمارے ملک میں ایک جمہوری حکومت ہے۔ احتجاج ایک آئینی حق ہے۔ پی آئی اے کے ملازمین نجکاری کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ یہ احتجاج ایک سانحے میں بدل گیا۔ اچانک فائرنگ ہوئی۔ تین انسان زندگی کی بازی ہار گئے۔ رینجرز کا کہنا ہے کہ انہوں نے گولی نہیں چلائی۔ پولیس کا بھی یہی موقف ہے۔ کہیں کوئی گلو بٹ اپنا کام تو نہیں دکھا گیا؟
سانحہ ماڈل ٹاون یاد کیجیے۔ اس قتل عام سے چند دن پہلے خواجہ سعد رفیق نے کہا تھا کہ پورا انتظام کر لیا گیا ہے۔ طاہر القادری کا ایسا استقبال ہو گا کہ وہ ہمیشہ یاد رکھیں گے۔ 17 اگست 2014 کو خون کی ہولی کھیلی گئی۔ خواجہ صاحب ٹھیک کہتے تھے ۔ قومی تاریخ کا یہ سیاہ دن قادری صاحب تو کیا قوم بھی ہمیشہ یاد رکھے گی۔ اس پر لطیفہ یہ کہ گاڑیوں کے شیشے توڑنے والا گلو بٹ جیل میں بیٹھا ہے مگر 14 انسانوں کا قاتل نا معلوم۔
یہی کہانی ایک بار پھر دہرائی گئی۔ ایک دن پہلے وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا تھا کہ احتجاج کرنے والوں کے پر کاٹ دیں گے۔ ان کے ساتھ وہی سلوک ہو گا جو دشمن کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ یہ وہی پرویز رشید ہیں جو مشرف دور میں مسکینوں کے امام بنے پھرتے تھے۔ آج فرعون کی بنے پھرتے ہیں۔
پاکستان کے دورے پر آئے ہوئےنواز شریف سخت غصے میں ہیں۔ تین لاشیں گرنے کے بعد بھی ان کا غصہ کم نہیں ہوا۔ فرماتے ہیں جو ملازمین احتجاج کریں گے انہیں جیل بھیج دیا جائے گا۔ میاں صاحب کا انتخابی نشان شیر ہے۔ شیر ایک درندہ ہے۔ درندے سے رحم کی امید نہیں کی جا سکتی۔ مگر میاں صاحب کے غصے کی اصل وجہ کیا ہے؟
یہ وہی نواز شریف ہیں جو جیل برداشت نہ کر سکے۔ مچھروں کا رونا روتے رہے۔ چوری چوری معاہدہ کیا۔ جدہ بھاگ گئے۔ وہاں بیٹھ کر جمہوریت کی قوالی کرتے رہے۔ یہ وہی نواز شریف ہیں جو نریند مودی کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔ دہلی سے بلاوا آئے تو سر کے بل جاتے ہیں۔ کشمیر کا نام بھی نہیں لیتے۔ اوبامہ کے سامنے زبان گنگ ہو جاتی ہے۔ طالبان کے آگے گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ دشمن کے سامنے گیدڑ مگر عوام کے لیے شیر
پی آئی کی نجکاری ایک طرف، سوال یہ ہے کہ میاں صاحب کو اتنی جلدی کیا ہے؟ ایک طرف ان کے سمدھی ہیں، پاکستان کے منشی اعظم، جو کشکول تھامے نگری نگری گھومتے ہیں اور قرضے پر قرضہ لیے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف میاں صاحب ہیں، جنہیں یہ فکر لاحق رہتی ہے کہ ہر اثاثہ بیچ دیا جائے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ میاں صاحب کا اصل مشن کیا ہے؟
میاں صاحب نے ہمیں یہ تو بتا دیا کہ پی آئی اے کو روزانہ 10 کروڑ خسارہ ہو رہا ہے مگر یہ نہیں بتایا کہ میٹرو بس پر روزانہ کتنا خسارہ ہو رہا ہے۔ جب اورنج ٹرین چلے گی تو یومیہ سرکاری خزانے سے کتنا روپیہ برباد ہو گا۔ میاں صاحب کو اس بات کا بھی پتہ نہیں چلا کہ پی آئی میں احتجاج کی شروعات کے پس منظر میں ان کے اپنے وزیر شاہد خاقان عباسی نےاپنی ایر لائن ائر بلو کے کرایوں میں تین سو گنا اضافہ کر دیا۔
اس وقت یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کراچی میں تین انسانوں کا لہو بہا کر سندھ رینجرز کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو اپنی سیاسی اشرافیہ سے خیر کی توقع بھی گناہ کبیرہ ہو گا۔ اگر جمہوری حکومت کو اپنی بنیادیں مضبوط کرنے کے لیے عوام کے لہو کی ضرورت ہے تو جمہوریت کی قوالی کرنے کی کیا ضرورت۔ آخر دشمن کے لیے گیدڑ اور اپنے لیے شیر کون پالتا ہے؟
مریم نواز شریف سے گذارش ہیں کہ ٹوئٹر پر تشریف لائیں اور نعرہ لگائیں، دیکھو دیکھو کون آیا۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment