Most Friendly Interview in the History of Pakistan; Program Kal Tak, Interviewer Javed Ch, Guest Shehbaz Sharif

Honestly, I could not find any interview friendlier than this one. Apparently, one can see that Chief Minister of Punjab is allowed to speak lies and mislead the population unchecked. Javed Chaudhry had been so kind not to ask any hard or tough question.

It may be worthy to note that this interview was taken in the aftermath of Modal Town massacre outside Minhaj-ul-Quran secretariat in Lahore. In this bloodshed, brave soldiers of Punjab Police had killed 14 people on spot. More than 100 innocent citizens were injured. Most of the people were shot on the upper parts of their bodies.

This is a naked truth and every Lahorian knows that Punjab Police works as a personal force of Shehbaz Sharif. The other truth is that on the same day Shehbaz Sharif was present in Lahore. And, he says that he was unaware of the happening. 

After that event, Shehbaz Sharif was also called as Qatal e Aala ( the biggest murderer )

I am posting this video so that we can remember how our so called politician were used to say in the past. 

The quality of questions asked and answers offered, I leave upon the reader or viewer to judge and decide




In the interview, CM says that Amnesty International says that there is no corruption in Punjab and the province is performing well. What is the reality of the Amnesty International's truth, it may be interesting to note that the head of Amnesty International Pakistan is working for the Prime Minister. 


Feel free to share your thoughts about the responses provided by CM.

Transparency International Pakistan's Head Work for PML-N

The government of PML-N always claim to be a corruption free government. Chief Minister of Punjab, Mian Shehbaz Sharif, continuously tells the media and Punjabi people that Punjab government is corruption free and there is only one way leading towards the development; metro bus.

So here is the formula PML-N uses to improve the ranking regarding corruption control. It hires the country head of Transparency International Pakistan, to work for the Prime Minister. And, in return it gets what it wishes; a certificate that Pakistan has become a corruption free nation. 


Have a look at the video. Amir Mateen and Rauf Klasra break the story.


In addition, both of the senior journalists also explain how the leadership of PML-N had been conspiracies against the democratic governement of Pakistan Peoples Party of Paksitan.






Please feel free to share your thoughts about the so called good governance of PML-N, which some people start calling as Islami Jamhuria Sharifia

وزیر خارجہ کی خالی آسامی کے لیے ایک عرضی


وزیر خارجہ کی خالی آسامی کے لیے ایک عرضی


بخدمت جناب وزیر اعظم اسلامی جمہوریہ پاکستان

جناب عالی

مودبانہ گذارش ہے کہ جب سے آپ نے پردھان منتری کا منصب سنبھالا ہے ہمارا عظیم ترین اسلامی جمہوریہ ایک عدد وزیر خارجہ سے محروم چلا آ رہا ہے۔ چنانچہ ایک طرف تو قومی خزانے کو تنخواہ اور دیگر مراعات کے ضمن میں ٹیکہ نہیں لگ پا رہا تو دوسری طرف اس وزارت کی ذمہ داریاں بھی آپ کے نرم ونازک کاندھوں پر ہے۔ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اب آپ کے کاندھے یہ بوجھ اٹھا اٹھا کر تھک گئے ہوں گے۔ میں آپ کی توجہ اس امر کی طرف مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ فدوی کی موجودگی میں اب آپ کو مزید ہلکان ہونے کی ضرورت نہ ہے۔ آئندہ سطور میں یہ واضح کرنے کہ آخر کیوں میں خود کو وزیر خارجہ کی نوکری کے لیے اہل ترین امیدوار پاتا ہوں۔

خدا لگتی کہوں تو تمام تر تلاش کے باوجود مجھے اپنے عظیم ترین اسلامی جمہورئیے کے اصلی اور ایک نمبر پردھان منتری کا سراغ نہیں مل سکا۔ آج تک سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ کے ہوتے ہوئے یہ ملک چل کیسے رہا ہے۔ تنگ آ کر وزیر اعظم ہاوس کی جانے والے تمام کھرے ناپے تو پتہ چلا کہ وزیر اعظم کی کرسی کسی غریب کی خوبرو بیوی کی طرح سب کی بھابھی بن چکی۔ جس کا ڈنڈا، اس کا راج۔ چڑھتے سورج کی پوجا میرا بھی سیاسی ایمان ہے۔ اس لیے مجھے یقین ہے کہ جو بھی وزیر اعظم کی کرسی پر اپنی متبرک تشریف رکھے گا، اس کی ذاتی وفاداری اور خدمت گذاری میں کوئی وزیر میرا مقابلہ نہیں کر سکےگا۔ آپ ایک قدر دان آدمی ہیں، امید ہے کہ آپ ہیرے کی قدر کرنے میں کوئی کنجوسی نہیں دکھائیں گے۔

وزیر خارجہ کے منصب کے لیے میری دوسری بڑی خوبی میری سستی اور کاہلی ہے۔ ادھر شام ڈھلی، ادھر ہماری آنکھیں بند ہوئیں۔ سورج سوا نیزے پر آتا ہے تو آنکھ کھلتی ہے۔ چونکہ اس میدان میں آپ کو اپنا مرشد اور امام سمجھتا ہوں اس لیے کبھی وزیر اعظم کی کرسی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ ہاں، آپ ایوان صدر میں بٹھا دیتے تو کیا ہی بات تھی۔ مگر، شکست تسلیم۔ قصر صدارت کے موجودہ مکین بازی مار گئے۔ مگر ہم نے بھی خوشامد اور چاپلوسی کے میدان میں انہیں مات دینے کا پکا تہیہ کیا ہوا ہے۔ جہاں تک میری سستی کا تعلق ہے تو یقین کیجیے کہ جب سے آپ نے حکومت سنبھالی ہے، یہ عرضی لکھ رہا ہوں جو آج آ کر ختم ہوئی۔ جانتا ہوں کہ وزیر خارجہ کی کرسی پر آپ کی دختر نیک اختر کا پیدائشی حق ہے۔ لیکن جب تک انہیں سائیڈ پوز میں ایسی تصویر بنوانے کے مشق نہیں ہو جاتی جس سے بے نظیر بھٹو کی یاد تازہ ہو جائے، اس وقت تک یہ خاکسار وزیر خارجہ بن کر اکڑتا پھرے تو اس میں مضائقہ کیا ہے؟

میری تیسری سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مجھے بالکل پتہ نہیں کہ ایک وزیر خارجہ کرتا کیا ہے۔ اس کی ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں، میرے فرشتے بھی نہیں جانتے۔ اس ضمن میں ہمارے وچار آپ کے نیک خیالات سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ اب اگر انسان نے صدر، وزیر اعظم، وزیر اعلی، گورنر یا وزیر خارجہ بن کر بھی کام ہی کرنا ہے تو اس سارے جھنجھٹ میں پڑنے کا فائدہ۔ چنانچہ، وزیر خارجہ کی کرسی کے لیے میں اس لیے بھی بہترین ہوں کہ میں عملی طور پر کچھ کرنے کا اہل ہی نہیں۔ ہاں، وزیر خارجہ کے آراستہ دفتر میں ضرور بیٹھ سکتا ہوں۔ پروٹوکول کی گاڑیوں کے درمیان ایک بڑی سی گاڑی میں سفر کرنا میرا محبوب مشغلہ ہو سکتا ہے۔ آپ کے حکم ہو اور سرکاری خزانے کا منہ کھلا ہو تو میں وسیع تر قومی مفاد کی خاطر پوری دنیا کا سفر کر سکتا ہوں۔ کاغذ، قلم، کتاب، اور اخبار سے مجھے بھی چڑ ہے۔ آپ جیسی صلاحیت بھی نہیں کی سنجیدہ سا منہ بنا کر ٹی وی پر ایویں ای مدبر اور سنجیدہ سیاستدان نظر آنے کی اداکاری کر سکوں۔ اگر آپ مجھے وزیر خارجہ بنا دیں گے تو اور کچھ بھی نہ کر سکا، ایک کونے میں مصلیٰ ڈال کر آپ اور آپ کے خاندان کے لمبے اقتدار کے لیے دعائیں ضرور کرتا رہوں گا۔

آپ یہ مت سوچیے گا کہ میں بالکل ہی نکما ہوں اور وزیر خارجہ بن کر کچھ بھی نہیں کروں گا۔ جی نہیں۔ میں نے پوری تیاری کر رکھی ہے۔ خادم اعلیٰ کے گذشتہ سات سالوں کی تمام تر بڑھکوں کا رٹا لگا رکھا ہے۔ اگر کوئی والد بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر اپنے بچوں کی جان لے لے گا تو اس کے ہاں تعزیت پر جا کر اس کو یاد دلاوں گا کہ بد ترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے۔ ہر ہفتے ایک بیان جاری کرنا ہے کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے۔ ہر مہینے ایک بھاشن دینا ہے کہ پاکستان نے جنوبی ایشیا میں باوقار کردار ادا کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔ ہر دوسرے تیسرے دن عوام سے وعدہ کرنا ہے کہ اگلے چھ ماہ میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو جائے گا۔ کبھی کبھی اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ سے ملاقات کر کے ان کو بتانا ہے کہ پاکستان برادر اسلامی ممالک سے برادرانہ تعلقات پر یقین رکھتا ہے۔ اگر مغربی ممالک لفٹ کروائیں تو ان کو بتانا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پر عزم ہے۔ ہر صبح ایک پریس ریلیز جاری کرنی ہے اور عوام کو بتانا ہے کہ بے خبرو دیکھ لو، ہمارے ملک کی عزت اقوام عالم میں بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔ ہر ہفتے لندن پلان کی قوالی۔ ہر ٹی وی شو میں تحریک انصاف پر تبرا بھیجنا۔ فوجی قیادت اور آپریشن ضرب عضب کی تعریف ہفتے میں باقاعدگی سے دو بار تعریف۔ دیکھ لیا میاں جی۔ خارجہ امور میں کتنے کائیاں ہیں ہم۔۔

میری ان گنت خوبیوں میں ایک خوبی اور بھی ہے اور میرا خیال ہے کہ وزیر خارجہ کی کرسی کے لیے یہ خوبی فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ آپ یہ جان کر بہت خوش ہوں گے کہ اگر تذکرہ پاکستان کی مسلح افواج کا ہو تو میرا چہرہ غصے سے لال ہو جاتا ہے، زبان گز بھر لمبی ہو جاتی ہے، سننے والے کو لگتا ہے کہ میں اپنے ملک کی فوج کے بارے میں نہیں بلکہ اسرائیل کی فوج کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔ جبکہ دوسری طرف، ذکر اگر بھارت کا ہو تو خواہ مخواہ میرے چہرے پر محبت اور وارفتگی کے تاثرات آ جاتے ہیں۔ مودی سرکار پاکستان کے بارے میں زہر بھی اگلے تو میرے ہونٹ دوستی اور شانتی کی تسبیح کرتے نہیں تھکتے۔ معاملہ بین الاقوامی طاقتوں کا ہو تو زبان بند ہو جاتی ہے اور کان احکامات سننے کے لیے بے تاب ہو جاتے ہیں۔ اب ایمانداری سے بتائیے گا کا میرا وزیر خارجہ بننا آپ کے طوالت اقتدار کے لیے کس قدر مفید ثابت ہو سکتا ہے۔

اگر میں اپنی خوبیاں یونہی گنواتا رہا تو یہ ایک کتاب بن جائے گی۔ اب ایک تو آپ کتاب کو بھارت اور اسرائیل سے بڑا دشمن سمجھتے ہیں تو یونہی قلم گھسیٹنے سے فائدہ۔ یقین کیجیے، وزیر خارجہ کی خالی آسامی کے لیے مجھ سے بہتر شخص روئے زمین پر نہیں ملے گا۔ ویسے بھی مجھے یقین ہے کہ وزیر خارجہ کی کرسی صرف اس لیے خالی پڑی ہے کہ آپ کو میری ہی تلاش تھی۔ براہ کرم، خاکسار کو فی الفور وزیر خارجہ تعینات کر کے ممنون احسان فرمائیں۔۔

العارض
قیصر ایم چوہدری، خود ساختہ خادم آستانہ عالیہ شریفیہ، پیرس

اسلامی جمہوریہ شریفیہ میں گورنر کی تعیناتی کی کہانی




اسلامی جمہوریہ شریفیہ کے غیور شہریوں کے مبارک، جمہوریہ شریفیہ کے سب سے بڑے صوبے کے با غیرت اور با شعور عوام کو سلامت۔ پاکستان کے ہر دل عزیز راہنما، قائد اعظم ثانی، نیلسن منڈیلا ثانی، صلاح الدین ایوبی ثانی، فخر ایشیا، سرمایہ کارِسعودیہ و برطانیہ، اعلیٰ حضرت بڑے میاں نے طویل غور و فکر اور سوچ بچار کے بعد پنجابی عوام کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ایک عدد گورنر کی تعیناتی کا تاریخ ساز فیصلہ کر لیا ہے۔ امید کی جانی چاہیے کہ اس کارِ عظیم کے صلے میں تاریخ میں ان کا نام ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ عوام کو یہ بھی یقین بھی ہونا چاہیے کہ نئے گورنر کی تعیناتی کے بعد پنجاب کے ہر شہر میں دودھ اور شہد کی ایک ایک نہر پھوٹے گی۔ ہر گلی میں امن کا طوطی بولا کرے گا۔ ہر چوک پر شانتی بین بجایا کرے گی اور نو من تیل ساتھ لیے رادھا ناچا کرے گی۔ جو ناہنجار اس پر شک کرے، ہمارے علمائے کرام کو اسے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے میں کوئی ہچکچاہٹ نہ ہونی چاہیے۔ 

تفصیلات کے مطابق سابق گورنر پنجاب گورنر کی حقیقی ذمہ داریوں سے نا آشنا ہونے کی وجہ سے کفران نعمت کے بار بار مرتکب ہو رہے تھے۔ جب ان کو اپنے اس گناہ عظیم کا احساس ہوا تو وہ اپنی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہو گئے اور آج کل کفارے کے طور پر لندن کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ یوں ان کی رخصتی کے بعد پنجاب کے گورنر کی کرسی خالی پڑی تھی۔ گورنر کے دفتر میں بھی الو بولنا شروع ہو چکے تھے۔ گورنر ہاؤس کی غلام گردشوں میں ویرانی ناچ رہی تھی۔ دنیا سوال کر رہی تھی کہ جو حکومت ایک عدد گورنر بھی تعینات نہیں کر سکتی، وہ دہشت گردوں کا مقابلہ خاک کرے گی۔ سب سے بڑھ کے پنجاب کے عوام اس محرومی کے احساس میں مبتلا ہونے لگی تھی کہ ہم بھی کیسے لوگ ہیں جن کا کوئی گورنر بھی نہیں۔ اگرچہ ایک عدد نئے گورنر کی ضرورت ہر گز نہ تھی۔ چھوٹے میاں جی وزارت اعلیٰ کے ساتھ ساتھ گورنری کا بوجھ بھی اپنے فولادی کاندھوں پر اٹھا سکتے تھے مگر اسلامی جمہور شریفیہ کے پردھان منتری کاغذی دولت کے ساتھ ساتھ دردِدل کی دولت سے بھی مالا مال واقع ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم ہاؤس سے کر مری کے یخ بستہ موسم میں وہ قوم کے دکھ درد میں کڑھتے رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کی راتوں کی نیند اڑ چکی ہے۔ چہرے پر ویرانیوں کو بسیرا ہے۔ وزن کم ہو کر آدھا رہ گیا ہے ۔  قوم کے غم کی ہی وجہ سے وہ اکثر فائلوں پر ضروری توجہ نہیں دے پاتے اور کئی کام ادھورے رہ جاتے ہیں۔ بُرا ہو ان ناقدین کا، جو ہر وقت ہمارے معصوم وزیر اعظم پر پھبتیاں کستے رہتے ہیں۔

بہر حال، اسلامی جمہوریہ شریفیہ کے ہر دل عزیز راہنما، قوم کی ڈوبتی کشتی کے واحد سہارے کے طور پر محمد شاہ رنگیلا کی بجائے سلطان صلاح الدین ایوبی کے نقش قدم پر چلنے کا پر خطر اور کٹھن فیصلہ کرتے ہیں۔ رائے ونڈ میں اپنی غریب گاہ میں ایک اہم اجلاس طلب کرتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ شریفیہ کے اہم عہدے داروں کے علاوہ ملک کے طول و عرض سے خاندانی بھانڈ، ٹٹ پونجیے، مالشیے، خاکروب، میراثی، موت کے کنووں کے سامنے گانے والے، سرکس میں اپنے کرتب دکھانے والے بطور امیدوار اس بزم میں شامل ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں، ملک و قوم کے وسیع تر مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے اصحاب کو بھی خصوصی دعوت دی گئی جو خوشامد، چاپلوسی، چرب زبانی اور لوٹ کھسوٹ کے فن میں یدِطولیٰ رکھتے تھے۔ اس بات کا خصوصی اہتمام کیا گیا کہ اس بزم میں صرف وہی اصحاب شامل ہوں جن کے روشن اذہان ہر قسم کی سیاسی سوجھ بوجھ کی آلائش سے صاف اور پاک ہوں۔ ان افراد کا داخلہ اس بزم میں ممنوع قرار دیا گیا جن کے سینے میں ضمیر نام کی کوئی شے مرتے دموں پر بھی پائی گئی۔ 


ہماری چڑیا بھی اس محفل کے ایک کونے میں دبکی اس تاریخ ساز اجلاس کا حال اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی ۔ رسمی علیک سلیک کے بعد انٹرویوز کا سلسلہ شروع ہوا، جو لمبا ہوتا چلا گیا ۔ انٹرویو کے دوران امیدواروں سے مختلف قسم کے سوال کیے گئے، امیدواروں کے جوابات کی روشنی میں ان کی شخصیت کا تجزیہ مختلف زاویوں سے کیا جاتا۔ ان تجزیوں میں یہ بات سامنے آتی، کہ انتہائی بے ضمیر انسانوں اور مردہ دلوں میں بھی اپنے ہم نفسوں کی بہتری اور بھلائی کے لیے کچھ کرنے کی تمنا کسی کونے کھدرے میں پائی جاتی ہے۔ چونکہ اسلامی جمہوریہ شریفیہ اور اس کے عوام دو مختلف چیزیں ہیں لہٰذا، اسلامی جمہوریہ شریفیہ کے وسیع تر مفاد کی خاطر یہ امیدوار مسترد کیے جاتے رہے۔ یہ اتنا مشکل انتخاب تھا کہ ایک ایسا خاندانی بھانڈ، جس کے پرکھوں نے اکبر اعظم کے دربار میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا تھا، بھی ناکام ہو گیا۔ جمہوریہ شریفیہ کے سب سے بڑے صوبے کے گورنر کی تعیناتی کا عمل لمبا ہونے لگا۔ امید نا امیدی میں بدلنے لگے۔ تبھی انٹرویو کے لیے قرعہ فال جناب عطاء شریف قاسمی کے حق میں نکلا۔ جناب قاسمی نے اپنی بابرکت اور بھاری تشریف امیدواری کی کرسی میں رکھی۔ اسلامی جمہوریہ شریفیہ کی مقتدر ترین ہستی کی جانب سے دھیمے لہجے میں ایک سوال کیا گیا۔ لہجہ اتنا دھیما تھا کہ صرف قاسمی صاحب کی سماعتیں ہیں سماعت کا شرف حاصل کر پائیں۔ جناب قاسمی نے اپنی آنکھیں بند کیں۔ چشمِ تصور میں پٹھانے خان کو دیکھا، اندھی عقیدت کو چھوتے ہوئے عشقیہ لہجے میں حضرت خواجہ ّغلام فرید کا یہ کلام پیش کیا 

میڈا عشق وی توں، میڈا یار وی توں
میڈا دین وی توں، ایمان وی توں

میڈا جسم وی توں، میڈا روح وی توں
میڈا قلب وی توں، جند جان وی توں

میڈا کعبہ، قبلہ، مسجد، منبر
مصحف تے قرآن وی توں

میڈے فرض، فریضے، حج، زکوٰتاں
صوم، صلوٰات، اذان وی توں

میڈی زُہد، عبادت، طاعت، تقوٰی
علم وی توں، عرفان وی توں

میڈا مرشد، ہادی، پیر طریقت
شیخ حقائق دان وی توں

میڈا حسن تے بھاگ، سہاگ وی توں
میڈا بخت تے نام نشان وی توں


حضرتِ قاسمی کی عقیدت اور عشق میں رندھی ہوئی آواز، اوپر سے عاشقین جمہوریہ شریفیہ کے درمیان محبوبِ اول کی بنفسِ نفیس موجودگی، ہماری چڑیا کا کہنا ہے کہ حاضرینِ محفل ہر ایک وجد سا طاری تھا۔ حکومت کے کچھ وزیر مجذوبانہ رقص کر رہے تھے تو کچھ دیوانہ وار۔ کچھ کی آنکھوں میں آنسو تھے کہ تھمنے کا نام نہ لے رہے تھے۔ سبھی چہرے عالم محویت میں اپنے محبوب اور جمہوریہ شریفیہ کے تاجدار کے منور چہرے کے طرف دیکھے ہی جا رہے تھے۔ ہر دل میں ایک ہی تمنا تھی کہ وقت تھم جائے۔ صدر مملکت اسلامی جمہوریہ شریفیہ، جن کی موجودگی اس سے قبل محسوس نہ کی گئی تھی، نے اپنی سامنے پڑی میز استعمال کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے طبلہ بجایا۔ محترم وزیر دفاع اٹھے اور انہوں نے منی بدنام ہوئی کی لے پر بھر پور ٹھمکا لگایا۔  محترم وزیر اعظم اور سبھی حاضرین محفل متفق تھے کہ اگر پڑوسی ملک سے جنگ کی نوبت آئی تو دشمن کو میدان جنگ میں بدنام کرنے لیے محترم وزیر کا ایک ٹھمکا ہی کافی ہو گا۔ اس پر جناب وزیر اعظم جمہوریہ شریفیہ نے ملک کی دفاعی تیاریوں پر بھرپور اطمینان کا اظہار کیا اور فرمایا کہ اب دشمن کو ہماری طرف بری آنکھ سے دیکھنے کی بھی جرات نہ ہو گی۔ اس کے بعد، جنابِ صدر نے بڑے میاں جی کی منظوری اور تھپکی کے بعد جنابِ قاسمی کو نیا گورنر مقرر کیا۔ اس موقع پر جنابِ صدر نے یہ بھی کہا کہ چونکہ آج کل کار حکومت فوج دیکھ رہی ہے لہٰذا، اگلے گورنر کی تعیناتی تک حکومت کو چھٹیاں دی جاتی ہیں۔ جنابِ صدر نے اس با برکت موقع پر یہ خوش خبری بھی سنائی کہ چھٹیوں کے دوران تمام حکومتی عہدیداروں کو تنخواہیں اور دیگر مراعات باقاعدگی سے ادا کی جائیں۔ اس کے بعد اجتماعی دعا کی گئی ۔ مولوی صاحب نے کہا کہ اللہ ہم پاکستانی عوام کو تیرے سپرد کرتے ہیں۔ اس پر تمام 
حکومتی عہدیداروں نے بلند آواز سے کہا، آمین۔